کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 292
ہیں ، پس انہوں نے بھائی کے ہاتھ سے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے خوب نرم کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے کر مسواک کی پھر اس کو چھوڑ کر اپنے سر مبارک کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینہ پر رکھ کر پاؤں پھیلا دیئے۔[1] وفات: اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالہ پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا، اپنا دست مبارک اس سے تر فرما کر چہرہ مبارک پر پھیرتے اور فرماتے تھے ((اللھم اعنی علی سکرات الموت)) (اے اللہ سکرات موت میں میری مدد کر) سیدہ ام المومنین بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھتی جاتی تھیں کہ یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں پتھرا گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر اس وقت ((الرفیق الا علی من الجنۃ)) جاری تھا[2] دوپہر کے قریب بروز دو شنبہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو اس دار فانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا، اگلے دن سہ شنبہ کو دوپہر کے قریب مدفون ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے، وہ اپنے اہل و عیال کے پاس اپنے مکان پر جو مقام سنح میں تھا گئے ہوئے تھے، اس خبر کو جو شخص سنتا تھا حیران و ششدر رہ جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حالت: سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھی ہوش و حواس بجا نہ رہے۔[3] وہ اپنی تلوار کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے: ((ان رجالا من المنافقین زعموا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مات و انہ ذھب الی ربہ کماذھب موسی ولیر جعن فیقطعن ایدی رجال وارجلھم)) ’’منافقوں کے چند لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے حالانکہ وہ فوت نہیں ہوئے، وہ اپنے رب کے پاس اس طرح گئے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام گئے تھے، وہ ضرور واپس آئیں گے اور کچھ لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے۔‘‘ سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جوش اور غضب کی حالت میں اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ ان سے یہ کہتا کہ تم اپنی تلوار نیام میں کر لو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے، اتنے میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور سیدھے حجرہ مبارک میں گئے، پیشانی مبارک کا بوسہ لے کر اور بغور دیکھ کر کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موت کا ذائقہ چکھا جس کو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۳۸۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۳۷۔ [3] یعنی شدت غم سے ان کی حالت عجیب ہو گئی۔