کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 291
نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھوانا چاہتے ہیں فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ کو اسی حالت میں رہنے دو جس میں میں ہوں اور باہر چلے جاؤ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درد کی سخت شدت اور اذیت تھی، اس لیے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف دی جائے، تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تخفیف ہوئی تو سب کو طلب فرمایا اور کہا کہ’’ جب وفود آئیں تو ان کو صلہ اور انعام سے ضرور خوش کیا کرو، مشرکین کو جزیرۃ العرب سے بالکل خارج کر دینے کی کوشش کرو، اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو ضرور روانہ کر دینا، انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا۔[1] اپنی صحبت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کسی کو نہ جاننا۔‘‘ اس کے بعد پھر درد کی زیادتی ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیہوش ہو گئے۔ وفات سے کچھ پہلے: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عباس فضل بن عباس سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ان ایام بیماری میں زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے،پانچ یا چھ دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں رکھ دیے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے صدقہ کر دینے کا حکم دیا، تاکہ کوئی چیز دنیا میں نہ چھوڑی جائے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ نماز اور متعلقین سے غافل نہ رہنا، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کے ایام علالت میں تیرہ نمازیں پڑھائیں ۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو دوشنبہ کے روز نماز فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میں پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے، اس وقت سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، انہوں نے اس مرتبہ پھر پیچھے ہٹنے کا قصد کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پھر اپنے ہاتھ سے روک دیا، اپنے مکان میں تشریف لے گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئے، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مطمئن ہو کر، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آج بہت افاقہ کی حالت میں دیکھ کر اپنے اہل و عیال کے پاس اپنے مکان میں چلے گئے۔[2] اسی اثناء میں عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ایک تر مسواک ہاتھ میں لیے ہوئے حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف غور سے دیکھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک چاہتے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۳۱ و ۴۴۳۲۔ صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ترک الوصیۃ۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۴۸۔ صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استخلاف الامام۔ سیرت ابن ہشام، صفحہ ۶۰۸۔