کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 290
دینے والا ہوں ، اللہ کے بندو! غرور اور تکبر اختیار نہ کرو، جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو تکبر اور فساد نہیں کرتے، آخرت کی بھلائی متقیوں کے لیے اور غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھ کو میرے قریبی رشتہ دار غسل دیں ، پھر فرمایا میرا جنازہ میری قبر کے کنارے رکھ کر ایک ساعت کے لیے الگ ہو جانا تاکہ ملائکہ مجھ پر نماز پڑھ لیں ، بعد ازاں گروہ کے گروہ مجھ پر نماز پڑھنا، پہلے میرے خاندان کے مرد نماز پڑھیں ، بعد ازاں ان کی عورتیں ، بیماری کی آخری حالت میں تین روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب فراش رہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم امامت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ مسجد میں نمازوں کی امامت کے لیے مقرر فرمایا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میرے باپ اس خدمت کو انجام نہ دے سکیں گے، کیونکہ وہ زیادہ رقیق القلب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر فرما دیں ۔ آپ نے فرمایا نہیں ! ابوبکر ہی امامت کریں گے۔ [1] سیّدنا ابوبکر مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ افاقہ محسوس ہوا اور مسجد میں تشریف لے آئے، حالت نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے آنے پر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امام کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خالی کرنے اور خود پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مونڈھے کے پاس سے پکڑ کر وہیں قائم رکھا، اور انہوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔[2] صحیح بخاری اور مسلم میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ کہ میں تمہارے باپ کے لیے خلافت نامہ لکھ دوں پھر فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مسلمان سوائے ان کے دوسرے کو سردار مقرر نہ کریں گے، اور خدائے تعالیٰ کی مشیت یہی ہے۔[3] اسی طرح صحیحین میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک روز حالت مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ اور قلم دوات طلب کیا، چونکہ اس وقت عارضہ کی شدت تھی، سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت نہ دی جائے، ہمارے واسطے قرآن مجید ہی کافی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں ، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھواتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے باتیں کرنے کی آواز ناگوار معلوم ہوئی، پھر آپ سے لوگوں
[1] صحیح بخاری، کتاب الاذان، حدیث ۶۶۴۔ صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استخلاف الامام۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الاذان، حدیث ۶۶۴۔ صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استخلاف الامام۔ [3] صحیح بخاری، کتاب المرضیٰ، حدیث ۵۶۶۶۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل ابی بکر۔