کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 289
کے لوگوں کو تمہارے آنے کی خبر نہ ہو، ان شاء اللہ تعالی تم کو فتح حاصل ہوگی، ۲۸ صفر ۱۱ ع کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کا اشتداد ظاہر ہوا، اسی بیماری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسامہ رضی اللہ عنہ کا جھنڈا درست کر کے فوج کو روانہ فرمایا اور تمام جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ سب اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ماتحت بنا کر روانہ کیے گئے، مگر علالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی اجازت سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ کو تیمارداری کے لیے مدینہ میں رکھ لیا تھا، باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اسامہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے ایک کوس چل کر مقام جرف میں قیام کیا، وہاں سے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر لیے ہوئے جرف میں پڑے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کی حالت دیکھ کر کوچ نہ کر سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حالت میں ان کو کوچ کرنے کا حکم نہ دیا اور مع لشکر ان کے جرف میں مقیم رہنے کو جائز رکھا۔ سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی سرداری سے بعض لوگوں کو انقباض پیدا ہوا کہ ان کے باپ زید رضی اللہ عنہ غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان چہ میگوئیوں کو سنا تو لوگوں کو بلا کر کہا کہ جب اس کا باپ سالار لشکر رہ چکا ہے تو اس کی سرداری میں کیوں اعتراض کیا جاتا ہے، پھر فرمایا کہ زید اوّل المسلمین میں سے ہیں ، ان کا مرتبہ اسلام میں بہت بڑا ہے، غرض جن کو اعتراض تھا، وہ نادم ہوئے اور پھر بخوشی ان کی سرداری کو تسلیم کیا۔[1]
علالت میں اضافہ:
بیماری روز بروز زیادہ ہوتی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات علیہ السلام سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ میں قیام کرنے کی اجازت طلب کی، سب نے بخوشی اجازت دے دی۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں گئے، پھر باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے مجمع میں ایک تقریر فرمائی اور کہا میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کرتا ہوں ، اللہ تعالی تم کو ہدایت دے اور میں اس کو تم پر چھوڑتا ہوں اور تم کو اس کے سپرد کرتا ہوں ، میں تم کو دوزخ سے ڈرانے والا ہوں اور جنت کی بشارت
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۶۹۔ سیرت ابن ہشام، صفحہ ۶۰۵۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الوضوء، حدیث ۱۹۸۔ صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استخلاف الامام۔ سیرت ابن ہشام، صفحہ ۶۰۴۔