کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 288
ہجرت کا گیارہواں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت: محرم ۱۱ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار آیا اور بڑھتا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کی خبر مشہور ہوئی تو بعض مفسدوں نے سر اٹھایا، مسیلمہ، طلیحہ، خویلد، اسود، سجاح بنت حارث نے الگ الگ نبوت کا دعویٰ کیا، ان لوگوں نے سمجھا کہ جس طرح سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب ہوئے اسی طرح ہم بھی کامیاب ہوجائیں گے، مگر اللہ تعالیٰ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک اور مہر کر دی کہ یہ سب کے سب ناکام، مخذول اور خاسر ہوئے ان میں مسیلمہ کذاب، یمامہ میں اور اسود بن کعب عنسی یمن میں زیادہ مشہور ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں ایک روز باہر تشریف لائے اور درد سر کی وجہ سے سر پر ایک پٹی باندھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ میری کلائی میں دو کنگن سونے کے ہیں ، میں نے ان کو نامطبوع سمجھ کر پھینک دیا، اس خواب کی میں نے یہ تعبیر کی ہے کہ یہ دونوں کنگن یہی دونوں کذاب، یعنی صاحب یمامہ(مسیلمہ کذاب) اور صاحب یمن (اسود کذاب) ہیں ۔[1] چنانچہ اسود کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فیروز نامی ایک مرد مبارک کے ہاتھ سے مارا گیا اور مسیلمہ کذاب سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وحشی قاتل سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ہلاک ہوا، وحشی کہا کرتا تھا کہ میں نے حالت کفر میں ایک بہترین انسان کو اور حالت اسلام میں ایک بدترین انسان کو قتل کیا۔ بستر علالت سے جہاد فی سبیل اللہ: ۲۶ ماہ صفر ۱۱ ھ کو بیماری سے کسی قدر افاقہ محسوس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام و فلسطین کی سرحدوں کی خبریں سن کر جنگ روم کی تیاری کا حکم دیا، کیونکہ یمامہ و یمن کے فتنوں اور عرب کے عیسائیوں کی سازشوں نے رومیوں کو پھر ملک عرب کی طرف متوجہ کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن سیّدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سالار لشکر بنا کر فرمایا کہ تم اپنے باپ کے مقتل پر اس قدر جلد جاؤ کہ وہاں
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۳۷۹۔