کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 285
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملک یمن سے زکوٰ ۃ و صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔[1] ان واقعات کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذیقعدہ ۱۰ ھ کو مدینہ منورہ سے حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مہاجرین و انصار اور رؤساء عرب کی ایک جماعت اور قربانی کے سو اونٹ تھے، مکہ میں اتوار کے روز ۴ ذی الحجہ کو داخل ہوئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بھی جو یمن کی طرف صدقات جمع کرنے کو گئے ہوئے تھے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے اور آپ کے ساتھ حج ادا کیا۔[2] خطبۃ الوداع: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دی اور عرفات میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو! میری باتوں کو سنو، کیونکہ میں آئندہ سال یا اس کے بعد اس مقام پر تم سے ملنے کا یقین نہیں رکھتاہوں ، لوگو! جیسا کہ یہ دن اور مہینہ حرام ہے، اسی طرح ایک دوسرے کے جان و مال تم پر حرام ہیں ، یعنی مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے، امانتیں ان کے مالکوں کو سپرد کرنی چاہیں ، دوسروں پر ظلم نہ کرو، تاکہ تم پر بھی ظلم نہ کیا جائے، سود حرام ہے، شیطان مایوس ہو گیا کہ اس کی پرستش اس سر زمین میں کی جائے، لیکن یہ ہو گا کہ چھوٹے چھوٹے امور میں اس کی اطاعت کی جائے گی، لہٰذا تم شیطان کی اطاعت سے بچو، اے لوگو! عورتوں کا تم پر حق ہے، عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو، میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ، ایک اللہ کی کتاب دوسرے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، جب تک تم کتاب و سنت پر عمل کرو گے گمراہ نہ ہو گے، مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کے مال میں بلا اجازت تصرف کرے، تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ’’بتاؤ میں نے احکام الٰہی تم کو پہنچا دیئے؟ سب نے مل کر جواب دیا، ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام الٰہی ہم تک پہنچا دیئے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ اے اللہ تعالیٰ تو گواہ رہنا۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں اس طرح کلمات فرمائے کہ جیسے کسی سے کوئی و داع ہوتا یا کسی کو وداع کرتا ہے، اس لیے اس حج کا نام حجۃ الوداع مشہور ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال خطبہ میں احکام اسلامی کی خصوصی تبلیغ فرمائی، اس حج کو حجۃ البلاغ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں ، اس خطبہ کے ختم ہونے کے بعد سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ماں نے دودھ کا پیالہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔اس
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۳۴۹۔ [2] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۵۷۶۔ [3] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔