کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 284
پڑھا اور فرائض اسلام کی تعلیم سے واقف ہو کر اپنی قوم میں واپس گئے۔ مباہلہ: اسی سال نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا جس میں ستر سوار اور بقول بعض چودہ ۱۴ تھے اور ان کا سردار عبدالمسیح اور ان کا اسقف ابوحارثہ بھی تھا، ان لوگوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو کر بحث مباحثہ شروع کیا، اسی اثناء میں سورۂ آل عمران کے شروع کی آیات اور آیت مباہلہ نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اسلام قبول کرنے کی نسبت فرمایا، تو وہ بہت گستاخی سے پیش آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے ہی تھے جیسے کہ آدم ( علیہ السلام ) کہ انہیں مٹی سے بنایا، عیسائیوں نے کہا کہ نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا بیٹا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو میرے ساتھ میدان میں چلو، اور میرے عزیز و اقارب بھی میرے ہمراہ ہوں ، دونوں گروہ الگ الگ بیٹھ کر کہیں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو، یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ دوسرے روز صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور ان عیسائیوں سے کہا کہ جب میں یہ دعا کروں کہ ہم میں جو جھوٹا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو تم آمین کہنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مستعدی دیکھ کر عیسائی خوف زدہ ہو کر کہنے لگے ہم مباہلہ نہیں کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مباہلہ نہیں کرتے تو اسلام قبول کر لو اور سب مسلمانوں کی طرح ہو جاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم کو یہ بھی منظور نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہم کو جزیہ دو یا ہم سے جنگ کرو، انہوں نے کہا کہ ہم کو جزیہ دینا منظور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو ان کا بال اور ناخن تک نہ بچتا۔ چلتے وقت عیسائیوں نے ایک امین کا تقرر اپنے لیے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ان کے ہمراہ کر دیا،[1] چند روز کے بعد نجران کے قریباً تمام عیسائی مسلمان ہو گئے۔ قریباً تمام قبائل یمن اور ملک یمن کا بادشاہ باذان مسلمان ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ملک یمن کی حکومت باذان ہی کے پاس رکھی تھی، اسی سال باذان کا انتقال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کے انتقال کے بعد شہر بن با ذان، عامر بن شہر ہمدانی رضی اللہ عنہ ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، علی بن امیہ رضی اللہ عنہ ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وغیرہ کو ملک یمن کے ایک ایک حصہ میں حاکم مقرر فرمایا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مع دوسرے چند صحابیوں کے یمن کی طرف بھیجا اور تاکید کی کہ جب تک کوئی مقابلہ کی ابتدا نہ کرے تم ہتھیار نہ اٹھانا،
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۳۸۰۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل علی۔