کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 282
ہجرت کا دسواں سال حجتہ الوداع: محرم ۱۰ ھ سے آخر سال تک بھی وفود کی آمد اور قبائل عرب کے اسلام میں داخل ہونے کا سلسلہ برابر جاری رہا، ماہ ربیع الثانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کو چار سو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ علاقہ نجران اور اس کے اطراف و جوانب کے لوگوں کی طرف روانہ کیا اور سمجھادیا کہ لوگوں کو تین بار اسلام کی دعوت کرنا اور جب وہ اسلام قبول کر لیں تو اسلام کی تعلیم دینا اور لڑائی نہ کرنا، ان اطراف کے لوگوں نے سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پہنچتے ہی فوراً بخوشی اسلام قبول کر لیا، انہیں اسلام قبول کرنے والوں میں قبیلہ بنو حرث بن کعب بھی شامل تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو واپس بلا لیا اور عمرو بن خرثم کو اس طرف اسلام کی تعلیم کے لیے نقیب بنا کر بھیجا۔ ماہ رمضان ۱۰ ھ میں غسان کا وفد آیا جس میں تین آدمی تھی، ان لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر بطیب خاطر اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کی طرف لوٹ کر گئے مگر ان کی قوم نے اسلام قبول نہ کیا۔ ماہ شوال ۱۰ ھ میں سلامان کا وفد سات آدمیوں کا آیا جس میں ان کا سردار حبیب بن عمرو بھی تھا، یہ لوگ بھی مسلمان ہوئے اور ضروریات دین کی تعلیم سے فارغ و واقف ہو کر واپس گئے،[1] ایک روز حبیب بن عمرو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ افضل الاعمال کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت پر نماز کا ادا کرنا۔ انھی ایام میں ازد کا دس آدمیوں کا وفد آیا یہ سب بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور ان کی تبلیغ سے تمام قبیلہ نے اسلام قبول کیا، قبیلہ ازد اور قبیلہ جرش میں اسی قبول اسلام کی وجہ سے جنگ ہوئی اہل جرش نے جنگ سے پیشتر اپنے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دریافت کرنے کو مدینے بھیجے تھے، یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا، کہ اہل جرش اور اہل ازد میں جنگ ہوئی اور جرش نے شکست پائی، اسی روز جرش کو شکست ہوئی تھی، جب یہ دونوں آدمی واپس گئے اور یہ واقعہ بیان کیا تو تمام قبیلہ جرش مسلمان ہو گیا۔[2]
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۷۰۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۵۶۷۔