کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 28
ملک یا کسی ایک قوم یا کسی ایک سلطنت یا کسی ایک سلطان یا کسی ایک عظیم الشان واقعہ کی تاریخیں جدا جدا لکھی ہیں ، بعض مورخین نے صرف علمائے اسلام، بعض نے صرف حکمائے اسلام، اسلام کی سوانح عمریاں ترتیب دی ہیں ، غرض اس قسم کی مستند تاریخی کتابیں ہزارہا سے کم ہرگز نہیں ہیں ، اس عظیم الشان ذخیرہ اور مجموعہ کا نام تاریخ اسلام یا فن تاریخ اسلام قرار دیا جا سکتا ہے اور جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس ذخیرہ کتب میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اسلامی سلطنتوں اور اسلامی ملکوں کی تعداد بھی اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ایک ایک اسلامی ملک اور ایک ایک اسلامی سلطنت کی ایک ایک ہی تاریخ انتخاب کی جائے تو یہ منتخب مجموعہ بھی دو چار الماریوں میں نہیں بلکہ کتب خانہ کے کئی کمروں میں سما سکتا ہے اردو زبان میں ایک متوسط درجہ کی تاریخ مرتب کرنا درحقیقت تاریخ اسلام کی کتابوں کا عطر نکالنا اور خلاصہ درخلاصہ کرنا ہے۔ کسی بہت بڑے منظر کا فوٹو ایک کارڈ پر لے لینا یاکسی عظیم الشان عمارت کی عکسی تصویر کو دانہ تسبیح کے سوراخ میں رکھ دینا بہت ہی آسان کام ہے، لیکن تاریخ اسلام کو کسی ایک کتاب میں جس کی ضخامت صرف دو ہزار صفحات کے قریب ہو، مختصر کر دینا بے حد دشوار اور نہایت مشکل کام ہے، اسی لیے میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں ، اس کا فیصلہ قارئین کرام ہی کر سکیں گے کہ میری یہ کتاب تاریخ اسلامی کے متعلق کیا حیثیت رکھتی ہے اور مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے میں نے اس واقعہ اور اس زمانہ کی مستند سے مستند تاریخ کو تلاش کیا اور کئی کئی مؤرخین کی تاریخوں کو لے کر ان کو پڑھ کر خود اس واقعہ کی نسبت ایک صحیح اور پختہ رائے قائم کی اس کے بعد پھر اپنے الفاظ میں اس کو حتی الامکان مختصر طور پر لکھا، جہاں کہیں مؤرخین کے اختلاف نے ایسی صورت اختیار کی کہ فیصلہ کرنا اور کسی ایک نتیجہ کو مرجح قرار دینا دشوار معلوم ہوا وہاں ہر مورخ کے الفاظ کو بجنسہ مع حوالہ ترجمہ کر دیا ہے، جہاں کہیں استخراج نتائج اور اظہار رائے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں بلا تکلف میں نے اپنی رائے کا اظہار اور اہم نتائج کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ چونکہ یہ تاریخ اردو زبان میں لکھی گئی ہے، لہٰذا ہندوستانی مسلمان ہی اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ بنا بریں میں نے ان اسلامی ممالک اور ان حکمران مسلمان خاندانوں کے متعلق کسی قدر زیادہ توجہ اور تفصیل سے کام لیا ہے جن کو ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ تعلق رہا ہے یا جن کو ہندوستانی زیادہ جانتے اور زیادہ پہچانتے ہیں ، ان سے واقف کرانے اور اسلامی تاریخ کا مکمل نقشہ پیش کرنے میں کوئی کوتاہی عمل میں نہیں آئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مابعد زمانہ کے اسی قسم کے مشاہیر کی نسبت جن کو کسی نہ کسی اسلامی فرقہ یا گروہ سے کوئی خصوصی تعلق ہے، حالات لکھنے میں میں نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایسی تفصیلات سے پرہیز کروں جو مسلمانوں