کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 279
یہ لڑکی جب اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی تو عدی نے اپنی بہن سے پوچھا کہ تو نے اس شخص یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسا پایا؟ اس نے کہا کہ وہ شخص ملنے کے قابل ہے نہایت خلیق اور اعلیٰ درجہ کا محسن ہے، عدی یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی قوم کی طرف سے وفد ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی عزت کی اور مسجد نبوی سے اپنے ہمراہ لیے ہوئے مکان پر آئے اور اس کو بچھونے پر بٹھایا، ایک عورت اثناء راہ میں مل گئی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا، جب تک وہ بات کرتی رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے، عدی بن حاتم کو اس خلق نے مسخر کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم کو کچھ نصائح فرمائے، عدی بن حاتم نے اپنا ہاتھ بڑھایا، بیعت کی اور مسلمان ہو کر اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نائب: تبوک سے واپس ہونے کے بعد وفود کا تواتر ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے جدا نہیں ہو سکتے تھے، کیونکہ قبائل عرب برابر آ آ کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے، جب حج کا موسم آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا اور بیس اونٹ قربانی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کے ساتھ کیے، پانچ اونٹ قربانی کے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے لیے، تین سو مسلمانوں کا قافلہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوا، سیّدنا ابوبکرصدیق کی روانگی کے بعد سورۂ براء ہ کی چالیس آیتیں نازل ہوئیں ، جن میں یہ حکم تھا کہ اس سال کے بعد مشرکین مسجد حرام کے قریب نہ جائیں اور بیت اللہ کا طواف برہنہ ہو کر نہ کریں ، [2]اور جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عہد کیا ہے وہ اس کی مدت تک پورا کر دیا جائے۔ غرض یہ اعلان حج کے موقع پر ضروری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ آیتیں دے کر اپنی اونٹنی پر سوار کرا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ بعد حج یوم النحر کھڑے ہو کر سب کو سنا دینا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے اور منزل ذوالحلیفہ میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قافلے سے جا ملے، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا، تم امیر ہو کر آئے ہو یا مامور ہو کر، سیّدنا نے جواب دیا کہ مامور ہو کر آیاہوں ، امیر آپ ہی رہیں گے، مجھ کو صرف یہ آیتیں سنانے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں سے روانہ ہو کر مکہ میں پہنچے سیّدنا ابوبکر
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۶۲ تا ۵۶۵۔ زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم، ص ۵۷۶ و ۵۷۷۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الحج، حدیث ۱۶۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب لا یحج البیت مشرک۔