کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 278
ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو مبارک باد دی تو انہوں نے اپنا تمام مال اللہ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کر دیا۔[1]
اہل طائف کا قبول اسلام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لانے کی خبر اہل طائف نے سنی تو ان کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں سے لڑنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، سیّدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو طائف میں شہید ہوئے تھے ان کے لڑکے ابوالملیح رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے آدمی اہل طائف سے مدینہ میں آ کر مسلمان ہو چکے تھے، تبوک سے واپس ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبدیا لیل بن عمرو اہل طائف کی طرف سے وکیل بن کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا، عبدیا لیل اور ان کے ہمراہیوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو حکمران مقرر فرما دیا اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لات کے بت اور مندر کے منہدم کرنے کے لیے روانہ کیا، بت خانے کے خزانہ میں سے جو مال برآمد ہوا اس سے سیّدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قرضہ ادا کیا گیا، باقی مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبوک سے مدینے میں واپس آتے ہی پھر وفود کا سلسلہ جاری ہو گیا، برابر وفود آتے، اسلام قبول کرتے اپنی اپنی قوم کی طرف سے بیعت کرتے اور تعلیم اسلام کے لیے معلم ہمراہ لے کر واپس ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک وفد کو رخصت کرتے وقت انعام اور صلہ بھی ضرور دیتے تھے۔[2]
تبوک سے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک جمعیت دے کر بلادطے کی جانب روانہ کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلادطے کے قریب پہنچ کر حملہ کیا، عدی بن حاتم فرار ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا، سیّدنا علی حاتم کی لڑکی کو قید کر لائے اور دو تلواریں ان کے بت خانے سے لوٹ لائے جن کو حرث بن ابی عمر نے چڑھایا تھا، حاتم کی لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر احسان کیجئے، آپ نے فرمایا کہ میں نے تجھ پر احسان کیا یعنی تجھ کو آزاد کر دیا لیکن تو جلدی نہ کر کوئی معتبر اور معزز شخص آئے تو میں اس کے ہمراہ تجھ کو تیرے ملک میں پہنچا دوں ، اتنے میں چند لوگ ملک شام کے آئے ان کے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو کپڑے اور زاد راہ وغیرہ دے کر رخصت کیا۔
[1] کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ مصنف نے یہاں مختصراً درج کیا ہے جبکہ یہ واقعہ صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۱۸ اور صحیح مسلم، کتاب التوبہ، باب حدیث توبۃ کعب رضی اللہ عنہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔
[2] سیرت ابن ہشام، ص ۵۴۸ تا ۵۵۳۔