کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 277
مسجد ضرار جلا دی گئی: سرحد شام کے حاکموں اور نائبوں سے اطاعت اور امن و امان رکھنے کا اقرار لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا، سب کی رائے یہی ہوئی کہ اب اور زیادہ قیام اور انتظار کی ضرورت نہیں ہے، ہرقل اور اس کی فوجیں مرعوب ہو چکی ہیں اگر ان میں ہمت ہوتی تو مقابلہ پر آ جاتے، آخرکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب پہنچے اور مدینہ صرف ایک گھنٹہ کے راستہ پر رہ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن دخشم سالمی رضی اللہ عنہ اور معن بن عدی عجلی رضی اللہ عنہ کو منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد کے جلانے اور مسمار کرنے کے لیے حکم دیا، کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما دی تھیں ﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا﴾(’’اور (ان میں ایسے بھی ہیں ) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنائی ہے تاکہ ضرر پہنچائیں ۔‘‘ (التوبۃ: ۹:۱۰۷)…) اور اس طرح منافقین کے کید سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقف ہو چکے تھے، چنانچہ مسجد ضرار کا نام و نشان مٹا دیا گیا،[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ۹ ھ میں داخل مدینہ ہوئے، اس سفر یعنی غزوہ تبوک میں دو مہینے صرف ہوئے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ تین صحابی ایسے تھے جو صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے ، مگر محض سستی کی وجہ سے آج، کل، کرتے رہے اور سامان سفر کی درستی نہیں کی یہاں تک کہ لشکر اسلام مدینہ سے روانہ ہو گیا، اس کے بعد بھی سستی کی وجہ سے روانہ نہ ہو سکے، اب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس ہو کر مدینے تشریف لائے تو ان تینوں نے حاضر خدمت ہو کر صاف صاف اقرار کیا، ان کے لیے حکم صادر ہوا کہ کوئی شخص ان تینوں سے ہم کلام نہ ہو، پچاس دن تک یہ برابر توبہ استغفار کرتے رہے، تب خدائے تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ ان کی توبہ مقبول ہو گئی ہے، جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہوئی کوئی شخص حتی کہ ان کے گھر والے بھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیتے تھے، ان کو سلام کا جواب بھی لوگوں سے نہ ملتا تھا، زندگی ان کے لیے وبال جان اور دو بھر تھی، یہ کیفیت جب مشہور ہو کر غسانی بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے اپنا ایلچی خط دے کر سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ تم ایک رئیس اور شریف آدمی ہو، تمہارے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی برا سلوک کیا ہے، تم میرے پاس چلے آؤ میں تمہاری خوب عزت اور دل دہی کروں گا، سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے یہ خط پڑھ کر تنور میں ڈال دیا اور ایلچی سے کہا کہ جاؤ اس کا یہی جواب تھا، جب سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ مقبول
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۴۱ و ۵۴۲۔