کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 276
برحق سمجھتا تھا، اس نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر سنی تو وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گیا، عیسائی لشکر اور غسانی بادشاہ، سب لشکر اسلام کی خبر سن کر ادھر ادھر چلے گئے اور میدان خالی چھوڑ گئے، تبوک مدینہ سے چودہ پندرہ منزل کی مسافت پر تھا، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس روز کے قریب قیام کیا، اس عرصہ میں ایلہ کا حاکم یجینہ بن رؤبہ اظہار اطاعت کے لیے حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر اس سے صلح کر لی، اس نے جزیہ کی رقم اسی وقت ادا کر دی، پھر مقام جربا کے لوگ آئے انہوں نے بھی جزیہ ادا کرنے کا اقرار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صلح نامہ لکھ دیا، اس کے بعد مقام اذرح کے باشندے حاضر خدمت ہوئے انہوں نے بھی جزیہ کی ادائیگی کے اقرار پر صلح نامہ حاصل کیا۔ تبوک کے قریب دومۃ الجندل کا علاقہ تھا، وہاں کا حاکم اکیدر بن عبدالملک بنو کندہ کے قبیلے سے تھا اور نصرانی مذہب رکھتا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا، اس کی طرف سے علامات سر کشی نمایاں ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ روانہ کیا اور فرمایا کہ اکیدر تم کو نیل گائے کا شکار کرتا ہوا ملے گا اس کو گرفتار کر لاؤ، سیّدنا خالد بن ولید اپنے ہمراہی سواروں کو لے کر روانہ ہوئے، رات بھر کی مسافت کے بعد صبح ہوتے اکیدر کے قلعہ کے متصل پہنچے۔ ادھر اکیدر کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا، گرمی کا موسم ، چاندنی رات اکیدر اپنی بی بی کے ساتھ محل کی چھت پر آرام کر رہا تھا، ایک نیل گائے نے جنگل کی طرف سے آکر محل کے دروازے کو اپنے سینگوں سے کھرچنا شروع کیا، اکیدر کی بیوی نے حیرت زدہ ہو کر اپنے شوہر کو متوجہ کیا، اکیدر اسی وقت اپنا گھوڑا تیار کرا کر اور اپنے بھائی حسان نامی کو ہمراہ لے کر اس نیل گائے کا شکار کرنے کے لیے، نکلا وہ ابھی نیل گائے کے پیچھے تھوڑی ہی دور چلا ہو گا کہ سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مع اپنے ہمراہیوں کے پہنچ گئے اور اس کو گھیر لیا، اکیدر اور اس کے بھائی نے مقابلہ کیا، اکیدر زندہ گرفتار ہو گیا اور اس کا بھائی لڑکر مارا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اکیدر کی ریشمی خوبصورت قبا اتار کر فوراً ایک سوار کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگے روانہ کی اور خود اس کو لے کر بعد میں حاضر خدمت ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیدر کی جان بخشی فرمائی، اس نے اطاعت اور جزیہ کی ادائیگی کا اقرار کیا اور اپنے قلعہ میں واپس آ کر دو ہزار اونٹ، اور آٹھ سو گھوڑے، چار سو زرہیں ، چار سو نیزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور پیش کش بھیجے اور صلح نامہ لکھا کہ مطمئن ہوا۔[1]
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۳۹۔