کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 275
میں منافقوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی کچھ پروا نہیں ہے، وہ ان کو بار خاطر سمجھتے تھے، اسی لیے ان کو چھوڑ دیا ہے الجرف میں مدینہ سے کوس بھر کے فاصلہ پر سیّدنا علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ منافقین میری نسبت ایسی ایسی باتیں کہتے تھے اس لیے حاضر خدمت ہو گیا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جھوٹے ہیں ، میں نے اپنے گھر بار کی حفاظت کے لیے تم کو مدینے میں چھوڑا تھا، تم واپس جاؤ، اور ان کی دل دہی کے لیے فرمایا کہ تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ وہاں سے پھر مدینے کو واپس تشریف لے گئے۔[1] بعض صحابی جو کسی سستی یا غفلت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ نہ ہو سکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد مدینے سے روانہ ہو کے اور راستہ کے منزلوں پر شریک لشکر ہوتے گئے، بعض منافقین جو مسلمانوں کو بددل کرنے کے لیے شریک لشکر تھے وہ راستہ کی مختلف منزلوں سے جدا ہو ہو کر واپس ہوتے رہے، مگر ان کی اس حرکت نا معقول کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے حال سے کوئی تعرض نہ فرمایا، اور جو راستہ میں رہ گیا اس کے متعلق پرواہ نہ کی۔ راستے میں قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں آئیں ، اس علاقہ کا نام حجر تھا، جب لشکر اسلام اس قطعہ اراضی میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے استغفار پڑھتے ہوئے جلدی گزر جاؤ اور یہاں کے کنویں کا پانی بھی نہ پیو۔ اسی علاقہ حجر کے حدود میں ایک شب قیام کرنا پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص تنہا لشکر گاہ سے باہر نہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈر کے قریب سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا منہ چھپا لیا اور سواری کو مہمیز لگا کر تیز کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ظالموں اور گناہگاروں کی بستی میں جاؤ تو ڈرتے ہوئے اور استغفار پڑھتے ہوئے جاؤ کہ مبادا ہمیں بھی ایسی ہی مصیبت پیش نہ آئے۔[2] مقام تبوک: جب لشکر اسلام چشمہ تبوک پر سرحد شام میں پہنچ گیا تو وہاں قیام کیا، ہرقل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۱۶۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل علی رضی اللہ عنہ ۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۱۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزھد۔