کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 272
ہجرت کا نواں سال فتح مکہ اور جنگ حنین کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ملک عرب کے مشرک لوگ خود بخود آ آ کر اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ ۹ ھ کے شروع ہوتے ہی ملک عرب کے دور دراز علاقوں سے قبیلوں اور قوموں نے اپنے وکلاء بھیج بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کیا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، اس سال بڑی کثرت سے وفود آئے اور عرب قبائل برابر مسلمان ہوتے رہے، اسی لیے ۹ ھ عام الوفود کے نام سے مشہور ہے۔[1] اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیوی اعتبار سے بھی شہنشاہ عرب کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی، مسلمانوں پر تو زکوٰ ۃ فرض تھی، جو قبائل ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے ان سے ایک خفیف رقم بطور جزیہ وصول کی جاتی تھی، بس یہی زکوٰ ۃ یا جزیہ وہ خراج تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہنشاہی میں رعایا سے وصول کیا جاتا تھا، زکو ۃ کے متعلق بعض دقتیں بھی پیش آئیں ، بعض عامل بھی شہید ہوئے، بعض قبائل کو اس انتظام کے قائم رکھنے کی وجہ سے سرزنش بھی کی گئی بالآخر یہ انتظام اور ملک کا نظام بحسن و خوبی قائم ہو گیا۔ غزوۂ تبوک: جنگ موتہ کی ہزیمت کا انتقام لینے کے لیے غسانی بادشاہ نے ایک لشکر عظیم فراہم کر کے ہرقل روم سے امداد طلب کی، ہرقل نے چالیس ہزار کا لشکر جرار غسانی بادشاہ کے پاس بھیجا اور خود بھی عظیم الشان فوج لے کر عقب سے روانہ ہونے کا قصد کیا، ابوعامر راہب جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے مکہ سے قیصر روم کے پاس چلا گیا تھا، اس کا کام اور مقصد یہی تھا کہ قیصر کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اکسائے ادھر اس نے منافقین مدینہ سے برابر خفیہ پیام سلام کا سلسلہ جاری رکھا، اسی کے دیے ہوئے مشورے کے موافق منافقین نے مسجد ضرار کی تعمیر شروع کی تھی، غرض سرحد شام پر عیسائی فوجوں کے اجتماع اور قیصر کے مدینہ پر حملہ آور ہونے کی خبریں متواتر مدینہ میں پہنچنی شروع ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عیسائی حملہ کو ملک شام کی سرحد ہی پر روکنا ضروری سمجھا کیونکہ ملک عرب کے اندر ہرقل روم کی فوجوں کے داخل ہونے سے یک لخت تمام ملک عرب میں بدامنی کے پیدا ہونے کا قوی احتمال تھا، نیز سرحد پر ایسے لشکر عظیم کا
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۵۵۔