کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 27
باتیں سکھا اور سمجھا دی ہیں کہ مؤرخین یورپ کی تمام مؤرخانہ سعی و کوشش کے مجموعہ کو مقدمہ ابن خلدون کے مجاور کی خدمت میں جاروب بنا کر مؤدبانہ پیش کیا جا سکتا ہے۔[1] مگر مسلمان مؤرخین کے علو حوصلہ اور رفعت ذوق کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ علماء اسلام کی مجلس میں ابن خلدون کے بے نظیر مقدمہ تاریخ کو چھوڑ کر اصل تاریخ ابن خلدون کی کوئی غیر معمولی وقعت اور نمایاں عظمت مسلم نہیں ہے۔
ابن ہشام، ابن الاثیر، طبری اور مسعودی وغیرہ سے لے کر احمد ابن خاوند شاہ اور ضیاء برنی تک، بلکہ محمد قاسم فرشتہ اور ملائے بدایونی تک ہزارہا مسلمان مؤرخین کی مساعی جمیلہ اور کار ہائے نمایاں جن ضخیم جلدوں میں آج تک محفوظ ہیں ان میں سے ہر ایک کتاب مسلمانوں کی مبہوت کن شوکت رفتہ اورمرعوب ساز عظمت گزشتہ کا ایک مرقع ہے، اور ان میں سے ہر اسلامی تاریخ اس قابل ہے کہ مسلمان اس کے مطالعہ سے بصیرت اندوز، اور عبرت آموز ہوں ، لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اب فی صدی ایک مسلمان بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی اسلامی تاریخ سے واقف ہونے کے لیے ان مسلمان مؤرخین کی لکھی ہوئی تاریخوں کو مطالعہ کرنے کی قابلیت بھی رکھتا ہوں ، حالانکہ مل کارلائل، الیٹ گبن وغیرہ کی لکھی ہوئی تاریخیں پڑھنے اور سمجھنے کی قابلیت بہت سے مسلمانوں میں موجود ہے۔
اندریں حالات جب کہ تمام اسلامی تاریخیں عربی و فارسی میں لکھی گئی ہیں اور ہندوستان میں فی صدی ایک مسلمان بھی عربی یا فارسی سے ایسا واقف نہیں کہ ان تاریخوں کا مطالعہ کر سکے،مسلمانوں کو تاریخ اسلامی کی طرف توجہ دلانے سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اردو زبان میں اسلامی تاریخ لکھی جائے۔
اب کہ میں اپنی ناچیز قابلیت اور معمولی استطاعت کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کر کے پیش کر رہا ہوں ، دوسرے وسیع النظر اصحاب کے لیے یقینا موقع حاصل ہے کہ وہ اسی طرز پر اس سے بہتر تاریخیں اردو زبان میں لکھیں ، اور میرا خیال ہے کہ جس قدر زیادہ ایسی تاریخیں اردو زبان میں لکھی جائیں گی اسی قدر زیادہ مسلمانوں کو اپنی تاریخ کی طرف توجہ ہو گی۔
تاریخ اسلام کی کیفیت اور حقیقت :
تاریخ اسلام درحقیقت ایک مستقل علم یا فن ہے، جو اپنے پہلو میں ہزار ہاضخیم کتابیں بالغ نظر اور عالی مقام مصنفین کی لکھی ہوئی رکھتا ہے، عام طور پر مسلمان مؤرخین نے اپنے ہم عہد سلاطین یا کسی ایک
[1] فاضل مؤلف کے اس انداز تشبیہ سے واضح اور برحق اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ مرقد سازی اور مزار سازی اور مجاوروں کے ’’پیشے‘‘ بہرحال اسلام میں ہرگز ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ایسی تشبیہات سے بھی بچنا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی پیرایہ بیان میں ہوں ۔