کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 269
کہ ان کو دینی واقفیت حاصل کرنے کا بہت ہی شوق تھا، ایک درم روزانہ عتاب کے لیے وظیفہ مقرر فرمایا کہ وہ کسی کے دست نگر نہ رہیں ،[1] ۲۴ ذیقعدہ ۸ ھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے،[2] سیّدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں امیر ہو کر حج ادا کیا، اس سال مسلمانوں نے بھی حج ادا کیا، اور مشرکین نے بھی اپنے طریقے پر حج ادا کیا، نہ مشرکوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض کیا نہ مسلمانوں نے مشرکوں سے کچھ کہا، اس میل جول کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین کو مسلمانوں کے اعمال حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے مطالعہ کرنے کا خوب موقع ملا، اور ان کی زبان پر بے اختیار مسلمانوں کی مدح و ستائش جاری ہو گئی۔ ۸ ھ کے متعلق ایک یہ قابل تذکرہ واقعہ رہ گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ کو روانہ ہوئے تو طائف کے سرداروں میں سے ایک سردار عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو محاصرہ طائف کے ایام میں طائف کے اندر نہ تھے، بلکہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور محاصرہ اٹھ جانے کے بعد طائف میں آئے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کروں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری قوم کو اس بات کا غرور ہے کہ مسلمان ان کو فتح نہیں کر سکے، اگر تو ان کو اسلام کی دعوت دے گا تو وہ تجھ کو قتل کر دیں گے۔ سیّدنا عروہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ سے بہت محبت کرتی اور میری بات مانتی ہے، مجھ کو امید ہے کہ وہ کبھی میری مخالفت نہ کریں گے، ان کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ وہ طائف میں آئے، اور ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر اہل طائف کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی،اہل طائف نے اس بات کو سنتے ہی ان پر تیروں کی بارش شروع کر دی اور وہ شہید ہو گئے، دم نزع ان کے اہل خاندان نے پوچھا کہ تم اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہو، ہم اس کا بدلہ کسی سے لیں یا نہ لیں ، انہوں نے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھ کو شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا، اب میری صرف یہ خواہش ہے کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رفیقوں کے پاس دفن کرنا جو یہاں ایام محاصرہ میں شہید ہو کر دفن ہو چکے ہیں ۔
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۲۹۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۵۳۰۔