کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 268
لیکن ہم میں سے کسی پختہ مغز اور سمجھدار شخص کو اس بات کا خیال تک بھی نہیں آیا، نہ ہم کو کبھی ایسا خیال آ سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’اے جماعت انصار! کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے، خدائے تعالیٰ نے میری بدولت تم کو ہدایت عطا فرمائی؟ انصار نے عرض کیا’’بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر بہت بڑا احسان ہوا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم لوگ آپس ایک دوسرے کے دشمن تھے، میری بدولت تم میں اتفاق پیدا ہوا، انصار نے عرض کیا بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر بڑا احسان فرمایا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ نادار تھے، میری بدولت اللہ تعالیٰ نے تم کو غنی کیا، انصار نے عرض کیا بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر بڑا احسان ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں تم مجھ کو جواب دے سکتے ہو کہ ساری دنیا نے تجھ کو جھٹلایا اور ہم نے تیری تصدیق کی، سب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور ہم نے پناہ دی، تو محتاج تھا ہم نے تیری مدد کی اور میں تمہاری ان سب باتوں کی تصدیق کروں گا، اے جماعت انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکری لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لے کر جاؤ۔‘‘ یہ تقریر سن کر انصار بے اختیار رو پڑے اور آنسوؤں کی جھڑی سے ان کی ڈاڑھیاں تر ہو گئیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ہجرت ایک تقدیری حکم نہ ہوتا تو میں بھی انصار میں ہی شامل ہوتا، اگر انصار ایک راستے پر چلیں اور لوگ دوسرا راستہ اختیار کریں تو میں یقینا انصار کا راستہ اختیارکروں گا۔ اے اللہ! انصار اور انصار کے لڑکوں پر اور ان کے لڑکوں پر رحم کر‘‘ یہ سن کر انصار کی جو حالت تھی اور ان کو جس قدر خوشی تھی اس کا ہم صرف تصور کر سکتے ہیں ، بذریعہ الفاظ کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو سمجھایا کہ یہ لوگ ابھی تازہ مسلمان ہوئے ہیں ، تالیف قلوب کے خیال سے ان کو زیادہ مال دیا گیا ہے، یہ نہیں کہ ان کا حق زیادہ ہے۔[1] مکہ کا پہلا امیر: بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے مکہ جاتے ہوئے عمرے کی نیت کی، مکہ میں داخل ہو کر عمرے کے ارکان سے فارغ ہو کر عتاب بن اسید ایک نوجوان شخص کو جن کی عمر بیس برس سے کچھ زیادہ تھی مکہ کا عامل مقرر فرمایا اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بغرض تعلیم قرآن و احکام دین ان کے پاس چھوڑا اور مع مہاجرین و انصار مدینے کی طرف روانہ ہوئے، عتاب بن اسید کو عامل اور مکہ کا امیر اس لیے مقرر کیا
[1] صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، حدیث ۳۱۴۷۔ صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم۔