کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 267
اسی جگہ قبائل ہوازن کی جانب سے ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حلیمہ سعدیہ کا واسطہ دلا کر معافی کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نماز ظہر کے وقت جب سب مسلمان نماز کے لیے جمع ہوں گے میرے سامنے اپنی درخواست پیش کرنا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد ہوازن سے فرمایا کہ تمہارے جس قدر قیدی میرے اور بنوعبدالمطلب کے حصہ میں ہیں ، وہ سب آزاد سمجھو اور اپنے ساتھ لے جاؤ، یہ سن کر تمام مہاجر و انصار بولے، ماکان لنا فھولرسول اللہ (جو ہمارا حصہ ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ہے)۔ یہ کہہ کر سب نے ہوازن کے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا، اس طرح تقریباً چھ ہزاری قیدی ذرا سی دیر میں آزاد کر دیئے گئے۔ انھی قیدیوں میں شیما بنت حلیمہ سعدیہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھیں ، انہوں نے جب کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ثبوت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری کمر میں تمہارے دانت کے نشان ہیں تم نے بچپن میں کاٹ لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درست ہے، یہ کہہ کر فوراً اپنی چادر بچھا دی اور اس پر ان کو بٹھایا، پھر فرمایا کہ اگر تم میرے پاس رہنا پسند کرو تو میں تم کو عزت و احترام سے رکھوں گا، اگر اپنی قوم میں جانا چاہو تو تم کو اختیار ہے، انہوں نے دوسری بات کو پسند کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہت سا مال و متاع ، ایک لونڈی، ایک غلام اپنی ملک میں سے دے کر رخصت کیا، شیماء نے اس لونڈی اور غلام کا باہم نکاح کر دیا جس سے نسل چلی، اور سنا گیا ہے کہ آج تک وہ نسل باقی ہے۔[1] انصار کی والہانہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جعرانہ میں جب مال غنیمت تقسیم کیا تو مکہ والوں کو جو مؤلفۃ القلوب تھے۔ زیادہ زیادہ رقمیں دیں اور بعض کو کئی گناہ ان کے حصہ سے زیادہ مال غنیمت ملا‘‘ مکہ والے چونکہ اکثر قریش یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے رشتہ دار اور ہم وطن تھے اس لیے انصار کے بعض نوجوانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں اور ہم وطنوں کو بلا استحقاق مال و دولت عطا کی اور ہم کو معمولی حصہ سے زیادہ کچھ نہ دیا، حالانکہ عطیات کے زیادہ مستحق تو ہم لوگ تھے۔ بہ بھنک اڑتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمع مبارک تک بھی پہنچ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انصار کو ایک جگہ جمع کیا، جب سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تم نے ایسا ایسا کہا ہے؟ انصار کی طرف سے جواباً عرض کیا گیا کہ ہمارے نوجوانوں نے اس قسم کی باتیں ضرور کی ہیں ،
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۱۷ و ۵۱۸۔