کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 266
والوں میں سے خوشی کے لہجے میں پکار اٹھا کہ لو آج سحر کا خاتمہ ہو گیا، ایک شخص نے کہا کہ مسلمانوں کی ہزیمت اب رک نہیں سکتی، یہ اسی طرح ساحل سمندر تک بھاگتے ہوئے چلے جائیں گے، ایک شخص شیبہ نامی نے کہا آج میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لوں گا، یہ کہہ کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف برے ارادہ سے چلا لیکن راستے ہی میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔[1] ہوازن کے میدان جنگ میں بہت سے آدمی مارے گئے اور وہ بالآخر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، ان کے بعد قبائل ثقیف کے لوگوں نے تھوڑی دیر میدان کار راز کو گرم رکھا آخر وہ بھی فرار کی عارگوارا کرنے پر مجبور ہوئے، اس لڑائی میں دشمنوں کے بڑے بڑے سردار اور بہادر لوگ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے، لیکن ان کا سپہ سالار اعظم مالک بن عوف فرار ہو کر طائف کی طرف گیا اور طائف والوں نے ان مفروروں کو اپنے یہاں پناہ دے کر شہر کے دروازے بند کر لیے، مفرورین کا ایک حصہ مقام اوطاس میں جمع ہوا اور ایک حصہ نے مقام نخلہ میں پناہ لی، دونوں جگہ مقابلہ اور مقاتلہ ہوا، لیکن مسلمانوں نے ہر مقام پر دشمنوں کو شکست دے کر بھگا دیا، اور مال غنیمت نیز قیدیوں کو لے کر واپس ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اسیران جنگ اور مال غنیمت کو مقام جعرانہ میں جمع کرنے کا حکم دیا اور سیّدنا مسعود بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کو حفاظت کے لیے مقرر فرما کر طائف کا قصد فرمایا۔ اس لڑائی میں چھ ہزار قیدی ۲۴ ہزار اونٹ، ۴۰ ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آئی، یہ لڑائی جنگ حنین کے نام مشہور ہے، تمام قبائل ثقیف طائف میں جمع ہو چکے تھے، اور اہل طائف ان کے ہمدردر بن چکے تھے۔ طائف کا محاصرہ: وادیٔ حنین سے طائف کی طرف جاتے ہوئے راستے میں مالک بن عوف کا قلعہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قلعہ کو منہدم کرا دیا، پھر قلعہ اطم آیا، اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا، طائف کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کو مقابلہ پر آمادہ دیکھا اور طائف کا محاصرہ کر لیا، بیس روز تک طائف کا محاصرہ جاری رہا، اس بیس روز کے اندر طائف کے ارد گرد کے علاقوں سے اکثر قبائل خود آ آ کر اور بعض بذریعہ و فود مسلمان ہوتے رہے، جنگ حنین میں صرف چار مسلمان شہید ہوئے تھے، لیکن طائف کے محاصرہ کی حالت میں بارہ مسلمان شہید ہوئے، اس محاصرہ میں بھی بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا، کہ طائفکے نواحی قبائل مسلمان ہو گئے، طائف کی فتح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت ضروری نہ سمجھ کر وہاں سے مراجعت کی اور مقام جعرانہ میں تشریف لا کر اسیران جنگ اور مال غنیمت کی تقسیم فرمائی۔
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۱۲۔