کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 265
سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ ، سیّدنا فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ ، ابوسفیان بن الحراث رضی اللہ عنہ اور ایک مختصر سی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رہ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر دلدل نامی پر سوار تھے، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے، اس سخت پریشانی اور افرا تفری کی حالت میں آپ بلند آواز سے فرماتے تھے۔ ’’انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب۔‘‘( ’’میں نبی ہوں ، اس میں کوئی (شک اور) جھوٹ نہیں ۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس استقلال اور شجاعت نے کسی قدر مسلمانوں کی ہمت بندہائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد دشمن پوری طاقت سے حملہ آور تھے اور یہ مٹھی بھر آدمی ان سے لڑ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جو بلند آواز تھے حکم دیا کہ مسلمانوں کو اس طرف بلاؤ، چنانچہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ہر قبیلہ کا نام لے لے کر آواز دینی شروع کی کہ اس طرف آؤ، اس آواز کو پہچان کر مسلمان اس طرح اس آواز کی طرف دوڑے جیسے گائے کے بچھڑے اپنی ماں کی آواز سن کر اس کی طرف دوڑتے ہیں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف سو ہی آدمی پہنچ سکے باقی دشمنوں کے درمیان حائل ہو جانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے اور وہیں سے لڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہہ کر دلدل کو دشمنوں کی طرف بڑھایا اور ان سو آدمیوں کے مختصر دستے نے ایسا سخت حملہ کیا کہ اپنے سامنے سے دشمنوں کو بھگا دیا اور ان کے آدمیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ تکبیر سن کر اور دشمنوں پر حملہ آوری دیکھ کر مسلمانوں نے بھی ہر طرف سے سمٹ کر دشمنوں پر نعرۂ تکبیر[1] کے ساتھ حملہ کیا اور ذرا سی دیر میں لڑائی کا نقشہ بدل گیا، دشمنوں کو کامل ہزیمت ہوئی۔[2] اس لڑائی میں مسلمانوں کو مشرکین اہل مکہ کے سبب جو شریک لشکر تھے ابتدا میں ہزیمت ہوئی تھی، کیونکہ انہوں نے خود بھاگ کر دوسروں کے قدم بھی متزلزل کر دیئے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شجاعت اور استقلال نے تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کو سنبھال لیا اور دشمنوں کو شکست فاش نصیب ہوئی۔ جس وقت لڑائی کا عنوان بگڑا ہوا تھا اور مسلمانوں میں جنگ کی افراتفری نمودار تھی تو ایک شخص مکہ
[1] دور خیر القرون میں مسلمانوں کا نعرہ، نعرئہ تکبیر یعنی اللہ اکبر ہی ہوتا تھا۔ یہ امت جیسے جیسے دور خیر سے دور شر کی طرف آتی گئی، فکری و عملی بگاڑ کی طرف بڑھتی گئی۔ اب جبکہ ہر طرف شر غالب ہے اور طاغوتی، مشرکانہ و کفریہ نظام مسلط ہیں ، دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ امت کے نعرے بھی غیر شرعی بن گئے ہیں ، الا ما شاء اللہ۔ چنانچہ بہت سے ایسے نعروں پر ہی زور دیا جا تا ہے، جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش اور اجازت نہیں دی گئی، العیاذ باللہ العظیم! [2] صحیح بخاری، کتاب الجھاد، حدیث ۲۹۳۰۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ حنین۔