کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 264
غزوۂ حنین
فتح مکہ، اور اکثر قریش کے داخل اسلام ہونے کی خبر سن کر عرب کے ان قبائل میں زیادہ کھلبلی اور پریشانی پیدا ہوئی جو مسلمانوں کے حلیف نہ تھے، انھی میں ہوازن اور ثقیف کے قبائل تھے، جو طائف اور مکہ کے درمیان رہتے اور قریش کے حریف و مدمقابل سمجھے جاتے تھے، یہ قبائل نہ مسلمانوں کے حلیف تھے، نہ قریش مکہ کے، ان کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ مسلمان مکہ کے بعد اب ہمارے اوپر حملہ آور ہوں گے، بنو ہوازن کے سردار مالک بن عوف نے بنو ہوازن اور بنو ثقیف کے تمام قبائل کو جنگ کے لیے آمادہ کر کے اپنے گرد جمع کر لیا، قبائل نصر، حبشم اور سعد وغیرہ بھی سب آمادہ جنگ ہو کر شریک ہو گئے اور مقام اوطاس میں اس لشکر عظیم کا اجتماع ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں اس لشکر عظیم کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی حدرد اسلمیٰ کو بطور جاسوس خبر لینے کے لیے روانہ کیا، انہوں نے واپس آ کر بیان کیا کہ دشمنوں کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں ، اور وہ جنگ کے لیے مستعد ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً جنگ کی تیاری شروع کی، دس ہزار مہاجر و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینے سے آئے تھے وہ سب اور دو ہزار اہل مکہ، کل بارہ ہزار کا لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوا، اہل مکہ کے دو ہزار آدمیوں میں کچھ نو مسلم تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جوابھی تک مشرکانہ عقائد پر قائم تھے، پہلی شوال ۸ ھ کو لشکر اسلام تہامہ کی وادیوں سے گزر کر وادی حنین میں پہنچا ، دشمنوں نے لشکر اسلام کے قریب پہنچنے کی خبر سنا کر وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں میں چھپ کر مسلمانوں کے لشکر کا انتظار کیا۔
مسلمان وادی کی شاخ در شاخ اور پیچیدہ گزر گاہوں میں ہو کر نشیب کی طرف اترنے لگے تھے، اور صبح کاذب کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ اچانک دشمنوں کی فوجوں نے کمین گاہوں سے نکل نکل کر تیر اندازی اور شدید حملے شروع کر دیئے، اس اچانک آپڑنے والی مصیبت اور بالکل غیر متوقع حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سراسیمہ ہو گئے، اور اہل مکہ کے دو ہزار آدمی سب سے پہلے حواس باختہ ہو کر بھاگے، ان کو دیکھ کر مسلمان بھی جدھر جس کو موقع ملا منتشر ہونے لگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے داہنی جانب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،