کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 262
داخل کرنے کی کوشش مطلق نہیں کی گئی، بلکہ مدعا صرف امن و امان قائم کرنا اور فساد و بد امنی دور کرنا تھا، چنانچہ اب وہ خدشہ باقی نہ رہا اور لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوئی، اس مذہبی آزادی کی حالت میں بت پرستوں کو اسلام کے مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور وہ یکے بعد دیگرے بہت جلد بخوشی اسلام میں داخل ہوتے گئے، یہاں تک کہ تھوڑے ہی دنوں میں سب نے اسلام قبول کر لیا۔ فتح مکہ سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر مکہ میں منادی کرائی کہ جو لوگ مسلمان ہو گئے ہیں ، وہ اپنے گھروں میں کوئی بت باقی نہ رہنے دیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نواح مکہ کے مشہور بتوں کے توڑنے اور بت خانوں کے منہدم کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دستے روانہ کیے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تیس سواروں کے ہمراہ روانہ کیا کہ بنو کنانہ کے بت عزیٰ نامی کو، جس کا استھان ایک نخلستان میں تھا جا کر، منہدم کریں ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جا کر عزّیٰ کو پاش پاش کر دیا اور اس کا مندر مسمار کر کے زمین کے برابر کیا۔[1] سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو بنی ہذیل کے بت سواع کے توڑنے اور مسمار کرنے کے لیے بھیجا گیا، سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ جب مندر کے قریب پہنچے تو پجاری نے کہا کہ، تم کیسے قادر ہو سکتے ہو، سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم دیکھتے جاؤ، یہ کہتے ہوئے مندر میں داخل ہوئے، اور بت کو پاش پاش کر دیا، پجاری اسی وقت بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ سیدنا سعد بن زید اشہلی رضی اللہ عنہ کو مناۃ نامی بت کے توڑنے کے لیے مقام قدید کی طرف بھیجا گیا، وہاں کے پجاری بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ مسلمان بت کے توڑنے پر ہرگز قادر نہ ہو سکیں گے، مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں نے جاتے ہی اس کو توڑ پھوڑ کر مندر مسمار کر دیا۔ اسی طرح اور بھی بت خانے مسمار ہوئے۔اس کے بعد بعض قبائل کی طرف تبلیغ اسلام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفود روانہ کیے،سیدنا خالد بن ولید بنو جذیمہ کی طرف بھیجے گئے، ان کو قتال سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہاں اتفاقاً سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنی پڑی اور بنو جذیمہ کے چند آدمی مقتول ہوئے، ان کا اسباب مال غنیمت کے طور پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب لے کر واپس مکہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ پہ اظہار افسوس فرمایا، بنو جنیطہ کا مال و اسباب اور ان کے مقتولین کا خون بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ جذیمہ کے پاس واپس بھجوایا،[2] فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں اکتیس روز تک مقیم رہے، اور نمازیں برابر قصر فرماتے رہے،[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاتعین قیام سے انصار کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اب شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں رہیں گے اور مدینے واپس نہ جائیں گے۔
[1] سیرت ابن ہشام ص ۵۰۸۔ [2] زاد المعاد بہ حوالہ الرحیق المختوم، ص ۶۰۳۔ [3] سیرت ابن ہشام ص ۵۰۵ و ۵۰۶۔