کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 261
﴿یٰٓـاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ (الحجرات : ۴۹/۱۳)
’’اے گروہ قریش تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟‘‘
اس سوالیہ فقرے کو سن کر قریش یعنی اہل مکہ نے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بزرگ بھائی اور بزرگ بھائی کے بیٹے ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سن کر فرمایا:اچھا میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ﴿لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ﴾ اذھبوا فانتم الطقاء[1] (آج تم پر کوئی ملامت نہیں جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔‘‘
اس خطبہ سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر جا بیٹھے اور لوگوں سے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بیعت لینے لگے، مردوں کی بیعت سے فراغت پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو عورتوں سے بیعت لینے پر مامور فرمایا اور خود بہ نفس نفیس ان کے لیے استغفار کرتے رہے۔
صفوان بن امیہ فتح مکہ کے بعد بخوف جان یمن کی طرف بھاگا، عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے جو اس کی قوم سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر صفوان کے لیے امان طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امان دی اور اس امر کے ثبوت کی غرض سے اپنا عمامہ جو مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تھا مرحمت فرمایا، عمیر بن وہب صفوان کو یمن کے قریب سے واپس لائے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو مہینے کی مہلت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مہینے کی مہلت عطا فرمائی، یہ صفوان وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہوتے وقت مزاحمت کی تھی اور پھر تاب مقاومت نہ لا کر فرار ہو گیا تھا، یہی حالت عکرمہ بن ابی جہل کی بھی ہوئی اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرمایا، یہ دونوں جنگ حنین کے بعد بخوشی مسلمان ہو گئے تھے۔
حق آیا باطل سرنگوں ہو گیا:
خانہ کعبہ کے بتوں کا ٹوٹنا گویا تمام ملک عرب کے بتوں کا ٹوٹنا تھا، اسی طرح قریش مکہ کا اسلام میں داخل ہو جانا، اور اسلام کی اطاعت اختیار کرنا سارے ملک عرب کا مطیع ہو جانا تھا، کیونکہ تمام قبائل کی آنکھیں قریش مکہ کی طرف ہی لگی ہوئی تھیں کہ وہ اسلام اختیار کرتے ہیں یا نہیں ، فتح مکہ کے بعد بہت سے قریش مسلمان ہو گئے تھے، لیکن بہت سے اپنے کفر اور بت پرستی پر قائم تھے، کسی کو زبردستی اسلام میں
[1] سورۃ یوسف :۱۲/ ۹۲… سورہ یوسف میں اس حوالہ کے تحت صرف اتنا قرآنی متن ہے کہ ﴿لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ﴾ اس کے بعد والے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ہیں ۔