کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 259
الگ الگ پڑاؤ ڈالے تھے اور سب نے آگ روشن کر رکھی تھی۔ ابوسفیان نے جب دور سے آگ روشن دیکھی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنا بڑا لشکر کہاں سے آ گیا، بدیل بن ورقاء خزاعی نے کہا کہ یہ خزاعہ کا لشکر ہے، ابوسفیان نے سن کر حقارت آمیز لہجہ میں جواب دیا کہ خزاعہ کی کیا مجال ہے کہ اتنا بڑا لشکر لا سکے، وہ ایک ذلیل و قلیل قوم ہے۔ رات کی تاریکی میں سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کی آواز پہچان لی اور وہ اسی خیال سے نکلے تھے کہ کوئی مکہ با اثر آدمی ملے تو اس کو خطرے سے آگاہ کر کے ترغیب دوں کہ اب مسلمان ہو جانا ہی تمہارے لیے مناسب ہے، انہوں نے فوراً ابوسفیان کو آواز دی اور کہا کہ یہ لشکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہے، اور صبح مکہ پر حملہ آور ہو گا، ابوسفیان کے ہوش و حواس اڑ گئے، اور سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قریب آ کر کہا کہ پھر اب کیا تدبیر کریں ، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم میرے پیچھے خچر پر سوار ہو جاؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لیے چلتا ہوں وہیں تم کو امان مل سکے گی، ابوسفیان بلاتامل خچر پر سوار ہو گیا اور اس کے دونوں ہمراہی مکہ کی جانب چلے گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو اپنے پیچھے سوار کیے ہوئے جب اسلامی لشکر گاہ کے قریب لوٹے تو سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ راستے میں ملے، انہوں نے ابوسفیان کو پہچان لیا اور قتل کرنا چاہا، لیکن سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ خچر کو مہمیز کر کے تیز رفتاری سے نکل گئے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ پیدل تھے وہ بھی پیچھے پیچھے تلوار لیے ہوئے آئے، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہلے پہنچے، ان کے بعد ہی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کافر بلاشرط قابو میں آ گیا ہے، حکم دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں ، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوسفیان کو امان دے چکا ہوں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اجازت چاہی تو سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ ! اگر تمہارے خاندان کا کوئی شخص ہوتا تو تم کو اس کے قتل میں اتنا اصرار نہ ہوتا، اور اتنی بے صبری نہ کرتے، سیّدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ عباس رضی اللہ عنہ مجھ کو تمہارے مسلمان ہونے کی اس قدر خوشی حال ہے کہ اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بھی اس قدر خوشی نہ ہوتی، کیونکہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مسلمان ہونے کے خواہاں تھے، ان دونوں حضرات میں اس قسم کی باتیں ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اچھا ابوسفیان کو ایک رات کی مہلت دی جاتی ہے، اور پھر سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو تم ہی اپنے خیمہ میں رکھو، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کو رات بھر اپنے پاس رکھا، صبح کو ابوسفیان نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔[1]
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۲۸۰۔