کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 257
رکھنے کی تاکید فرمائی، ادھر بدیل بن ورقا مع ہمراہوں کے مدینے سے باہر جا رہے تھے، اور ابوسفیان مکہ سے مدینے کو آ رہے تھے، راستہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی، ابوسفیان نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسی وادی تک آئے تھے،[1]ابوسفیان کو یہ یقین تھا کہ ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مکہ کے اس واقعہ کی خبر نہ پہنچی ہو گی، اسی لیے وہ صلح نامہ کی تجدید جلد از جلد کرنا چاہتا تھا۔ ابوسفیان مدینہ میں : ابوسفیان نے مدینے میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ سے الگ الگ باتیں کرنا چاہیں ، مگر کسی نے اس کو کوئی جواب نہ دیا، اس کو بڑی مایوسی ہوئی، آخر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ یہ مذاق کیا کہ اس سے کہا کہ تو بنی کنانہ کا سردار ہے، مسجد نبوی میں خود کھڑے ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کر دے کہ میں صلح کی میعاد کو بڑھاتا اور عہد و اقرار کو مضبوط کیے جاتا ہوں ، ابوسفیان نے اسی طرح کھڑے ہو کر مسجد میں اعلان کیا اور فوراً مدینہ سے روانہ ہو گیا، جب وہ مکہ میں پہنچا تو قریش مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے تیرے ساتھ تمسخر کیا تھا، بھلا معاہدے کہیں اس طرح کرتے ہیں ۔ ابوسفیان کو اپنی اس حماقت پر بڑی ندامت ہوئی، ابوسفیان کی روانگی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ کی طرف روانگی کا حکم دیا اس وقت تک خفیہ خفیہ جنگ کی تیاریاں تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کر ہی رہے تھے لیکن یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اسلامی لشکرکس طرف کو روانہ ہو گا اور کس قوم یا علاقہ پر حملہ ہوگا، اس احتیاط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ قریش کو پیشتر سے اس حملہ کی خبر نہ ہونے پائے۔ ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے قریش کو مسلمانوں کے حملہ آور ہونے کی اطلاع دینے کے لیے ایک خط کسی عورت کے ہاتھ ان کے پاس روانہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام الٰہی کے ذریعے اس کی اطلاع ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور زبیر بن العوام کو روانہ کیا کہ فلاں عورت قریش مکہ کے نام ایک خط لے جا رہی ہے اس سے خط برآمد کر لاؤ، انہوں نے روضہ خاخ میں پہنچ کر اس کو گرفتار کیا، اس کا تمام اسباب و سامان دیکھا، خط کا پتہ نہ چلا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا، کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلط خبر ملے خط ضرور اس کے پاس ہے، چنانچہ انہوں نے عورت کو ڈرایا دھمکایا تو اس نے اپنے جوڑے یعنی سر کے بالوں میں سے خط نکال کر دیا، دیکھا تو خط سیّدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا تھا، عورت اور خط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، سیّدنا حاطب رضی اللہ عنہ طلب کیے گئے، انہوں نے کہا
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۹۔