کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 256
مل کر قتل کیا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان ہے کہ قریش بد عہدی کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے ضرور عہد شکنی کی ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں حکم صادر کرنے والا ہے، کئی روز کے بعد بدیل بن ورقاء اور عمروبن سالم خزاعی مدینے میں پہنچے، قریش مکہ کی عہد شکنی اور مظالم کی شکایت کی، عمرو بن سالم خزاعی نے ایک نہایت پردرد نظم میں اپنی مظلومی کی داستان سنائی، اس نظم کے بعض شعر یہ ہیں : ان قریشا اخلفوک الموعدا ونقضوا میثاقک الموکدا ’’قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے!اور انہوں نے مضبوط معاہدہ کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا توڑ ڈالا ہے۔‘‘ وجعلوا لی فی کداء رصدا وزعموا ان لست ادعوااحدا ’’اور ہمیں خشک گھاس کی طرح پامال کر دیا ہے۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آئے گا۔‘‘ و ھم اذل و اقل عد داً! ھم بیتونا بالوتیر ھجدا ’’اور وہ ذلیل ہیں اور تعداد میں قلیل ہیں ۔انہوں نے وتیر (وہ محلہ جہاں بنو خزاعہ آباد تھے) ہم کو سوتے ہوئے جا لیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ کے ان لوگوں کی تسلی تشفی کی اور کہا کہ ہم تمہاری امداد کو ضرور پہنچیں گے، ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے سے مکہ کی جانب رخصت فرما دیا، جب یہ لوگ مدینے سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوسفیان مکہ سے مدت صلح بڑھانے اور عہد کو مضبوط کرنے کے لیے روانہ ہو گیا، لیکن وہ ناکام واپس جائے گا۔[1] مکہ والوں کو جب اپنے کرتوت کے نتائج پر غور کرنے کا موقع ملا تو وہ بہت خائف ہوئے اور ابوسفیان کو روانہ کیا کہ مدینے میں جا کر شرائط صلح از سر نو قائم کرے، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ سفر اورلڑائی کی تیاری شروع کر دو، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی اس تیاری کے پوشیدہ
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۷ و ۴۸۸۔