کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 253
گھر اسی روز ماتم[1] شروع ہو گیا، یعنی ان کے گھر کے آدمی فرط غم سے رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے کھانا پکوا کر جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر بھجوایا، [2]جب سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنا فتح مند لشکر لیے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکل کر کچھ دور تک بطریق استقبال تشریف لے گئے، [3]سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ کے خطاب کی خوش خبری سنائی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ جنت میں دو بازؤوں سے اڑتے پھر رہے ہیں ، اسی روز سے ان کا نام سیّدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ مشہور ہوا۔ ایک روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو خدائے تعالیٰ نے دو بازو مرحمت فرمائے ہیں جن سے وہ جنت میں اڑتے پھرتے ہیں ، اسی روز سے وہ ذوالجناحین اورطیار کے لقب سے موسوم ہوئے،[4] جنگ موتہ ماہ جمادی الاولیٰ ۸ ھ میں ہوئی۔ جنگ قضاعہ: اس جنگ کے ایک ماہ بعد مدینے میں خبر پہنچی کہ سرحد شام کے قریب قبیلہ قضاعہ نے مدینہ پر حملہ کے لیے لشکر جمع کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو تین سو مہاجرین و انصار کے لشکر کا امیر بنا کر اس طرف روانہ کیا، سیّدنا عمرو بن العاص رات کو سفر اور دن کو پوشیدہ مقامات میں قیام کرتے ہوئے روانہ ہوئے، دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن کی جمعیت بہت زیادہ ہے، ایک قاصد مدینہ کی طرف بھیجا گیا، یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو کمک دے کر روانہ کیا، سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے پر لشکر اسلام حملہ آور ہوا اور دشمن تاب مقادمت نہ لا سکا اور ان کا تمام لشکر منتشر ہو گیا، اسلامی لشکر صحیح سالم مدینہ منورہ میں واپس آیا۔[5] مدینہ سے پانچ منزل کے فاصلے پر ساحل سمندر کے قریب قبیلہ جہینہ نے غدر و سرکشی اور مدینہ پر حملہ آوری کے سامان جمع کیے اس کا حال ۸ ھ میں آپ کو معلوم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو تین سو مہاجر و انصار کے ساتھ اس طرف روانہ کیا، یہ مہم بغیر کسی مقابلہ میں اور مقاتلہ کے واپس آئی اور دشمنوں پر اس مہم کی خبر ہی سن کر ہیبت طاری ہو گئی۔
[1] ماتم سے مراد ہے رونا۔ اس سے روافض کا وہ مفہوم اور مطلب نہ لیا جائے جو وہ ماہ محرم الحرام میں اپنی مخصوص رسموں وغیرہ سے لوگوں کو تاثر دیتے ہیں ۔ ایسے امور سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس لیے وہ دین کا حصہ نہیں ۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۵۔ [3] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۶۔ [4] الرحیق المختوم ص ۵۲۹۔ [5] زاد المعاد۔ سیرت ابن ہشام بہ حوالہ الرحیق المختوم، ص ۵۳۲ تا ۵۳۴۔