کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 252
اور غیرت دلا کر چپقلش مردانہ پر از سر نو آمادہ کر دیا، پھر اس خوبی سے دشمنوں کے لشکر عظیم پر پے در پے حملے کیے کہ رومیوں کے چھکے چھوٹ گئے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہی نہیں کہ خود بے جگری سے حملے کیے بلکہ انہوں نے اپنے لشکر کی ترتیب اور نقل و حرکت کو بڑی خوبی سے اپنے قابو میں رکھا، انہوں نے کبھی میسرہ کو آگے بڑھایا، کبھی میمنہ کو پیچھے ہٹایا، خود بھی حملہ آور ہوتے تھے اور اپنے لشکر کے مختلف حصوں سے دشمنوں کو مضروب کرتے تھے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بجلی کی طرح میدان جنگ میں کوند رہے تھے اور اپنے لشکر کے ہر حصہ کو خود مدد پہنچاتے تھے، غرض صبح سے شام تک سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے تین ہزار غازیوں کو رومیوں کے ایک لاکھ لشکر جرار سے لڑایا، جب شام ہونے کو آئی تو رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ سے فرار کی عار گوارا کی اور بے اوسان ہو کر بھاگے، مسلمانوں نے تھوڑی ہی دور تک تعاقب کیا اور کچھ مال غنیمت بھی اس تعاقب میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اس لڑائی میں کل بارہ صحابی رضی اللہ عنہم لشکر اسلام سے شہید ہوئے، کفار کے مقتولوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو سکی۔[1] سیف اللہ خالد رضی اللہ عنہ : سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگی قابلیت کا سب نے اعتراف کیا، لیکن سب سے بڑا اعتراف یہ تھا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو سیف اللہ کا خطاب ملا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جس روز میدان موتہ میں غازیان اسلام مدینے سے سیکڑوں کوس کے فاصلے پر مصروف جنگ تھے اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں الہام الٰہی کے ذریعہ تمام حالات جنگ کی اطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ تمہارے لشکر کی خبر یہ ہے کہ انہوں نے دشمنوں کا مقابلہ کیا، زید رضی اللہ عنہ شہید ہوا، اللہ نے اس کو بخش دیا، بعد اس کے جعفر رضی اللہ عنہ نے اسلامی علم اپنے ہاتھ میں لیا دشمنوں نے اس کو ہر چہار طرف سے گھیر لیا، یہاں تک کہ وہ شہید ہوا، اللہ نے اس کو بھی بخش دیا، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا، وہ بھی دشمنوں سے لڑ کر شہید ہوا، یہ سب کے سب جنت میں اٹھا لیے گئے اور تخت زریں پر متمکن ہیں ، ان تینوں کے بعد اسلامی جھنڈے کو سیف من سیوف اللہ(’’اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار!‘‘) یعنی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لیا اور لڑائی کی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالا۔[2] اسی روز سے سیّدنا خالد بن ولید سیف اللہ کے نام سے پکارے جانے لگے، سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۳ و ۴۸۴۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۲۶۲۔