کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 251
مسلمانوں نے وہاں مقابلہ مناسب نہ سمجھا، وہاں سے کترا کر مقام موتہ کی طرف بڑھے، تاکہ جنگ کے لیے اچھا میدان ہاتھ آئے، بالآخر میدان موتہ میں دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، ایک طرف ایک لاکھ لشکر جرار تھا، دوسری طرف تین ہزار غازیان اسلام تھے، اسی لشکر اسلام میں سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،اور مسلمان ہونے کے بعد ان کو اسلام کی طرف سے پہلی مرتبہ جوہر شجاعت دکھانے کا موقع ملا تھا، قیصر روم اور مسلمانوں کی یہ پہلی لڑائی تھی، اس لڑائی کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی پہلی لڑائی بھی کہا جا سکتا ہے، اگرچہ سرحد شام کے قریب اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہو چکی تھیں ، لیکن قابل تذکرہ لڑائیوں میں یہ سب سے پہلی لڑائی تھی جو مسلمانوں نے ملک شام کی حدود میں لڑی، سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ علم ہاتھ میں لیے قلب لشکر کے سامنے سب کے آگے آگے تھے، میمنہ قطبہ بن قتادہ عذری رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا، اور میسرہ میں عبایہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ تھے، زید بن حارثہ لڑتے اور کفار کو قتل کرتے ہوئے بہت آگے بڑھ گئے، کفار نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے، ان کے شہید ہوتے ہی سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دوڑ کر آگے بڑھے اور رایۂ اسلام کو سنبھال لیا، سیّدنا جعفر نے بہت سے کفار کو قتل کیا، آخر ان کا گھوڑا زخمی ہو کر گرا اور وہ پیادہ دشمنوں سے لڑتے رہے، دشمنوں نے ان کو اپنے نرغہ میں لے لیا، بالآخر ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر الگ جا پڑا مگر انہوں نے بائیں ہاتھ سے جھنڈے کو سنبھالے رکھا، جب بایہ ہاتھ بھی کٹ گیا تو گردن سے علَم کو لگا کر سینے سے سنبھالے رہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں شہید ہو گئے، ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر علم کو اپنے ہاتھ میں لیا، تھوڑی دیر لڑ کر یہ بھی شہید ہو گئے اور رایہ اسلام گر گیا، مسلمانوں میں آثار پریشانی ہویدا ہوئے، سیّدنا ثابت بن اقرم رضی اللہ عنہ نے جھٹ آگے بڑھ کر علم اٹھایا اور بلند آواز سے کہا ’’مسلمانو! کسی ایک شخص کے امیر بنانے میں موافقت کر لو۔ لشکریان اسلام کی طرف متفقہ آواز بلند ہوئی کہ رضینابک (ہم لوگ تمہاری امارت سے راضی ہیں ) ثابت بن اقرام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’ماانا بفاعل فاتفقوا علی خالد بن الولید‘‘ (میں یہ کام نہ کر سکوں گا تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرداری تسلیم کر لو) لشکر اسلام کی طرف سے فوراً آواز بلند ہوئی کہ ہم کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرداری منظور ہے، یہ سنتے ہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوراً آگے بڑھ کر ثابت بن اقرم کے ہاتھ سے علم لے لیا اور رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے۔ ابھی تک رومی لشکر غالب اور مسلمان مغلوب نظر آتے تھے، بعض مسلمانوں کی ہمتیں یہ رنگ دیکھ کر پست ہو چکی تھیں ، لیکن خالد رضی اللہ عنہ نے علم ہاتھ میں لیتے ہی مسلمانوں کو للکار کر لڑائی پر آمادہ کیا