کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 250
کے کہ یہ حاکم بصری کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لیے ہوئے جا رہے ہیں ان کو شہید کر دیا، سیّدنا حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بلاوجہ قتل ہونے کی خبر جب مدینہ منورہ میں پہنچی تو مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم اس سرکش غسانی سردار کی سرکوبی کے لیے روانہ کی اگر اس مہم کی روانگی میں ذرا بھی تامل ہوتا تو شام کی طرف سے مدینہ پر حملہ ہونا یقینی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مسلمان اپنے اپنے اسلحہ جنگ لے کر موضوع حرق میں جمع ہوں ، چنانچہ تین ہزار اسلامی لشکر موضع حرق میں جمع ہو گیا،[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی سرداری زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی، اور حکم دیا کہ اگر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی اطالب رضی اللہ عنہ اس لشکر کے سردار ہوں گے،[2] اگر جعفر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ رواحہ رضی اللہ عنہ سردار لشکر ہوں گے، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر جس کو لشکری پسند کریں اپنا سردار بنا لیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کو تھوڑی دور تک بطریق مشایعت پہنچانے گئے، پھر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔[3] سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو لیے مقام معان تک بڑھے چلے گئے، مقام معان میں پہنچ کر خبر ملی کہ حاکم موتہ شرجیل بن عمرو نے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ایک لاکھ جرار فوج فراہم کر رکھی ہے، اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ موتہ سے تھوڑی دور پیچھے وادی بلقاء میں خود قیصر روم خیمہ زن ہے۔ اس خبر کو سن کر لشکر اسلام میں آثار فکرو تردد نمایاں ہوئے، مسلمان دو دن تک معان میں ٹھہرے رہے اور باہم یہ مشورہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور امداد کا انتظار کیا جائے، ابھی کوئی خاص رائے قائم نہ ہوئی تھی کہ سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف مخاطب کر کے کہا: ’’تم لوگ شہادت کی جستجو میں نکلے ہو، کفار سے ہم گنتی یعنی اعداد و شمار اور قوت کے ذریعے نہیں لڑتے، بلکہ ہم اس دین کے ذریعے لڑتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو مشرف کیا ہے، پس مقام موتہ اور لشکر ہرقل کی طرف پیش قدمی کرو، اپنے لشکر کا میمنہ اور میسرہ درست کر کے کفار کا مقابلہ کرو، اس کا نتیجہ ان دو نیکیوں سے خالی نہ ہوگا، یا تو ہم کو فتح حاصل ہو گی، یا شہادت میسر ہو گی۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ بہادرانہ کلام سن کر سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک ہاتھ میں نیزہ دوسرے میں جھنڈا لے کر اٹھ کھڑے ہوئے، تمام مسلمانوں میں جوش اور شہادت کا شوق پیدا ہوا، لشکر اسلام معان سے روانہ ہوا، ایک گاؤں مشارف نامی کے قریب دشمن کی جمعیت کثیر مقابل نظر آئی، مگر
[1] زاد المعاد۔ فتح الباری بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۵۲۶۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۲۶۱۔ [3] سیرت ابن ہشام ص ۴۸۲ و ۴۸۳۔