کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 25
کہانیوں کے سننے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی سچی اور حقیقی تاریخ میں لاتعداد حاتم طائی و نوشیرواں جلوہ فرما ہیں مسلمانوں کو ارسطو بیکن اور بطلیموس و نیوٹن کی بھی کوئی احتیاج نہیں ہے کیونکہ ان کے اسلاف کی مجلس میں ایسے ایسے فلسفی وہیئت داں موجود ہیں جن کی کفش برداری پر مذکورہ مشاہیر کو فخر کا موقع مل سکتا ہے۔ کس قدر افسوس اور کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج جبکہ مسابقت اقوام کا ہنگامہ تمام دنیا میں برپا ہے، مسلمان جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتے ہیں وہی سب سے زیادہ اپنی تاریخ سے بے پروا اورغافل نظر آتے ہیں ، مسلمانوں کے جس طبقہ کو کسی قدر بیدار اور ہوشیار کہا جا سکتا ہے اس کی بھی یہ حالت ہے کہ اپنے لیکچروں ، تقریروں ، مضمونوں ، رسالوں ، اخباروں اور کتابوں میں جہاں کہیں اخلاق فاضلہ کے متعلق کسی نظیر و تمثیل کی ضرورت پیش آتی ہے تو یورپ اور عیسائیوں میں سے کسی مشہور شخص کا نام فوراً اور بلاتکلف زبان اور نوک قلم پر جاری ہو جاتا ہے، اس سے زیادہ مستحق سیکڑوں ہزاروں مسلمانوں میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی ان کو معلوم نہیں ہوتا۔[1] اس حقیقت سے کون انکار کر سکتاہے، کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ اور علوم جدید سے واقف مسلمانوں کی تقریروں اور تحریروں میں نپولین، ہنی بال، شیکسپیئر، بیکن، نیوٹن، وغیرہ مشاہیر یورپ کے نام جس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں ایسی کثرت سے خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، حسان بن ثابت، فردوسی، طوسی، ابن رشد اور بوعلی سینا وغیرہ کے نام تلاش نہیں کیے جا سکتے اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف اور غافل ہیں ، مسلمانوں کی ناواقفیت اور غفلت کا سبب یہ ہے کہ اوّل تو علم کا شوق، دوسری ہمسر قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو کم ہے، دوسرے علم حاصل کرنے کے مواقع اور فرصتیں میسر نہیں ، تیسرے سرکاری مدارس اور کالجوں نے اسلامی درس گاہوں کو اس ملک ہندوستان میں قریباً ناپید کر دیا، چوتھے مسلمانوں میں جس طبقہ کو تعلیم یافتہ طبقہ کہا جاتا ہے اور جو ہندوستانی مسلمانوں میں پیش رو سمجھا جاتا ہے وہ سب کا سب سرکاری درس گاہوں اور کالجوں میں ہو کر نکلا ہوا ہوتا ہے، جہاں اسلامی تاریخ، نصاب تعلیم کا کوئی جزو نہیں اور اگر ہے تو وہ کوئی اور ہی چیز ہے جس
[1] یہی رویہ مسلمانوں کے تنزل اور ان کی تباہی کا باعث بنا کہ ہم نے غیراقوام و افراد کی نقالی کو اپنا شیوہ بنا لیا اور اپنے مشاہیر کو بھول گئے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج ہمارے بچوں کی بہت بڑی اکثریت انبیائے کرام علیہم السلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و صحابیات علیہ السلام کی سیرت و اسوہ سے تو نا واقف ہے لیکن گلوکاروں ، اداکروں کے نام اور گانوں و فلموں کو خوب حفظ کیے ہوئے ہے۔ الا ماشاء اللہ انتہائی قلیل بچے حتیٰ کہ بالغ افراد دین کے بنیادی تقاضوں اور ایمانیات و عقائد سے واقف ہوں گے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!