کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 249
ہجرت کا آٹھواں سال ملک عرب میں اب اسلام کو بظاہر کوئی خطرہ نہ رہا تھا، اسلام کے قبول کرنے اور شرک سے بیزار ہونے میں جان و مال کا خطرہ لازمی نہ تھا، اندرونی طاقتیں یکے بعد دیگرے سب اپنا اپنا زور اسلام کے خلاف صرف کر کے مایوس ہو چکی تھیں ۔ اسلام ملک عرب کے اندر اب خود سب سے بڑی طاقت بن چکا تھا، جوں جوں اسلام کی قوت و طاقت مسلم ہوتی گئی ملک عرب میں فتنہ و فساد کم ہوتے گئے، تاہم قریش مکہ جو تمام ملک عرب میں خصوصی عزت و امتیاز رکھتے تھے ابھی تک کفرو شرک پر قائم اور مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرم تھے، منافقین مدینہ، یہود ان خیبر، مشرکین مکہ تینوں دشمنوں نے ملک عرب کے اندرونی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھار ابھار کر ہر مرتبہ نتیجہ میں ناکامی و نامرادی دیکھی تو اب انہوں نے ایران و روم کی شہنشاہیوں اور ایرانی و رومی سرداروں کو مسلمانوں کیخلاف برانگیختہ کرنے کی کوششیں اور سازشیں شروع کیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان خطرات سے بے خبر نہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام سلاطین کے نام جو ملک عرب کے اردگرد تھے دعوتی خطوط روانہ کیے، ان دعوتی خطوط نے اکثر درباروں میں بہت ہی اچھا اثر کیا، اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے تار و پود کو توڑ کر رکھ دیا، لیکن بعض سلاطین جو دشمنوں کی سازشوں اور کوششوں سے متاثر و مسموم ہو چکے تھے بجائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر صلح و سلامتی کی طرف متوجہ ہوتے اور بھی زیادہ مخالفت و عداوت پر مستعد ہو گئے، اور مسلمانوں کے لیے لازمی ہو گیا کہ ان بیرونی حملوں سے محفوظ رہنے کی تدبیریں عمل میں لائیں ۔ اگر کسی بیرونی بادشاہ کا حملہ مدینہ پر ہو جاتا تو تمام ملک عرب کا از سر نو پھر مخالفت پر مستعد ہوجاتا اور مسلمانوں کا کچلا جانا یقینی تھا۔ جنگ موتہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبلیغی و دعوتی خطوط سلاطین کے نام لکھے تھے ان میں ایک خط حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حاکم بصری کے نام روانہ کیا تھا، حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ روانہ ہو کر ابھی بصرہ تک نہ پہنچے تھے، سرحد شام کے قریب مقام موتہ میں پہنچنے پائے تھے کہ وہاں کے حاکم شرجیل بن عمرو غسانی نے جو قیصر روم کی طرف سے اس علاقہ کا صوبہ دار تھا حارث رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر لیا، اور یہ معلوم کر