کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 247
بن العاص رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہونے اور مکہ سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی نسبت اوپر بیان ہو چکا ہے کہ قریش مکہ نے ان کو مسلمانوں کے خلاف نجاشی شاہ حبش کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا کہ مسلمان مہاجرین کو حبش میں پناہ نہ مل سکے نجاشی کے دربار میں ان کو خفت و ناکامی حاصل ہوئی تھی، اس نے ان کے دل پر اسلام کی صداقت کا سکہ بٹھا دیا تھا، وہ اثر برابر اندر ہی اندار اپنا کام کرتا رہا اور بعد کے حالات نے اس کی تائید و تصدیق کی، لہٰذا اب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہوسکا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان کے بڑے گہرے دوست تھے، سفر حدیبیہ میں بمقام عسفان رات کے وقت نماز عشاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرائت کلام مجید سن کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا دل نرم ہو گیا تھا، اسی روز سے ان کو اسلام سے محبت تھی، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوراً عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی ہمراہی پر آمادہ ہو گئے، اس کے بعد دونوں نے اپنے تیسرے دوست عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا، وہ بھی بلا تامل ان کا ساتھ دینے کو تیار ہو گئے، قریش کے یہ تینوں سردار مکہ سے روانہ ہو کر مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے، ان کے مسلمان ہو جانے سے اسلام کو بڑی تقویت پہنچی، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مسلمان ہوتے وقت جب یہ معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے سے پچھلے تمام گناہوں کی معافی ہو گئی تو وہ بہت ہی خوش ہوئے۔[1]
[1] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ… اس روایت میں صرف عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا ذکر ہے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نہیں ۔