کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 246
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی بی بی ام فضل کی ہمشیرہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا،[1]چوتھے دن علی الصباح مشرکین مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ دو مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن ہو گئے، فوراً مکہ سے چلے جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انصار کی مجلس میں بیٹھے ہوئے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے باتیں کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے کہا کہ تم گھبراتے کیوں ہو؟ میں خود ہی جانے کے لیے تیار ہوں ، مگر تم کو کیا معلوم ہے کہ میں نے یہاں ایک عورت سے نکاح کیا ہے، ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے، اگر تم اجازت دو تو میں یہاں ضیافت ولیمہ کروں اور تمام مکہ والوں کو کھانا کھلاؤں اور اس کے بعد یہاں سے چلا جاؤں ، اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے، سہیل نے کہا کہ ہم کو تمھارے کھانے کی کوئی حاجت نہیں ہے تم معاہدہ کی پابندی کرو اور فوراً یہاں سے چلے جاؤ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت کوچ کی منادی کرا دی اور سوار ہو کر مکہ سے باہر تشریف لے گئے، حدود حرم سے نکل کر وادی سرف کے اندرونی میدان میں قیام فرمایا، یہیں میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہونے لگے تو سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر عمارہ رضی اللہ عنہا جو چھوٹی بچی تھیں ، دوڑتی ہوئی اور چچا، چچا چلاتی ہوئی آئیں کہ مجھ کو بھی اپنے ہمراہ مدینے لے چلیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً اس لڑکی کو اٹھا کر اپنے ہودج میں بٹھا لیا، اور سیّدنا جعفر بن عبدالمطلب اور زید بن حارثہ بھی اس لڑکی کی کفالت و پرورش کے دعویدار ہوئے، ہر ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ میں اس لڑکی کو اپنی کفالت میں رکھوں اور اس کی پرورش کروں ۔ سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی تھے اس لیے میرا حق فائق ہے، سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میری چچا زاد بہن ہے اور میری بیوی اس کی خالہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے دعاویٰ سن کر عمارہ رضی اللہ عنہا کو سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ اور فرمایا کہ خالہ بجائے ماں کے ہوتی ہے، لہٰذا اس کی پرورش جعفر رضی اللہ عنہ کے یہاں ہونی چاہیے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو آپ رضی اللہ عنہ نے رضا مند کر دیا۔[2] عمروبن العاص کا قبول اسلام: مدینہ منورہ میں تشریف لائے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ہی روز ہوئے تھے کہ مکہ میں سیّدنا عمرو
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۲۵۱۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم النکاح المحرم۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۲۵۱۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم النکاح المحرم۔