کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 243
آؤں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ مکہ میں آئے تو مکہ والوں کو خیبر کی خبر کا بے حد منتظر پایا انہوں نے مکہ والوں کے ساتھ عجیب تمسخر کیا اور ان سے خیبر کا اصل حال بیان نہ کیا، اپنے روپے فراہم کرانے میں سب سے مدد لی، تمام روپے لے کر اور صرف عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو چلتے وقت فتح خیبر کا اصل حال سنا کر مکہ سے روانہ ہو گئے، اس کے بعد کفار کو حجاج کے مسلمان ہونے اور خیبر میں مسلمانوں کے کامیاب و فتح مند ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ کف افسوس ملتے تھے اور حجاج کے اس طرح مع دولت صاف نکل جانے پر اور بھی زیادہ متاسف تھے۔[1] خیبر سے واپس مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام قبائل کی طرف جو مسلمانوں کی بیخ کنی کی کوششوں اور سازشوں میں لگے ہوئے تھے ایک ایک دستہ فوج ادب آموزی اور رعب قائم کرنے کے لیے روانہ کیا، تاکہ کوئی بڑی بغاوت اور خطرناک سازش سر سبز نہ ہونے پائے۔ چنانچہ نجد کے قبیلہ فزارہ کی جانب سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے ہمراہ روانہ کیے گئے،[2] قوم ہوازن کی طرف سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تیس سواروں کے ساتھ روانہ کیا گیا، سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو تیس شتر سواروں کے ہمراہ بشر بن زرام یہودی کی گرفتاری کے لیے بھیجا گیا، جو خیبر کے یہودیوں کو بغاوت پر آمادہ کر رہا تھا، بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ تیس سواروں کے ساتھ بنی مرہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیے گئے، سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ قوم جہنیہ کے ایک قبیلہ حرقات کی طرف بھیجا گیا، سیّدنا غالب بن عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ قوم بنی الملوح کی تادیب کے لیے بھیجا گیا، سیّدنا ابی حدرو اسلمی کو صرف تین آدمیوں کے ساتھ قبیلہ حشم بن معاویہ کے سردار رفاعہ بن قیس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا گیا، سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور محلم بن جثامہ کو مقام اضم کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ تمام فوجی دستے کامیاب و فتح مند واپس ہوئے اور ہر جگہ مسلمانوں کو فتح و کامیابی نصیب ہوئی، سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے لڑائی میں جب ایک شخص کے قتل کو تلوار اٹھائی تو اس نے لا الہ الا اللہ کہا مگر سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے جواب طلب کیا گیا، انہوں نے عرض کیا کہ اس شخص نے دھوکا دینے اور اپنی جان بچانے کے لیے لا الہ الا اللہ کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۶۸ و ۴۶۹۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب التنفیل۔