کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 240
قریب قریب چھ زبردست قلعے تھے، یہودیوں نے اسلامی لشکر کے پہنچنے پر میدان میں نکل کر مبارزت طلبی کی، ان میں مرحب اور یاسر دو بہت بڑے بہادر اور پیل تن جنگ جو تھے، انہوں نے جب میدان میں نکل کر اپنا حریف طلب کیا تو مسلمانوں کی طرف سے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نکلے، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے مرحب کو اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے یاسر کو قتل کیا، بعض روایات میں مرحب کا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مقتول ہونا بیان کیا گیا ہے۔ میدان جنگ میں یہودیوں نے مسلمانوں کا مقابلہ دشوار سمجھا تو انہوں نے قلعہ بند ہو جانا مناسب سمجھا، ان قلعوں میں صعب بن معاذ کا قلعہ سب سے زیادہ مضبوط اور ایسے موقع پر واقع تھا کہ اس سے دوسرے تمام قلعوں کو مدد پہنچتی تھی۔ لشکر اسلام نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا جو مرحب کا قلعہ تھا۔ بالآخر سخت کوشش و مقابلہ کے بعد ناعم پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد قلعہ صعب بن معاذ مفتوح ہوا۔ پھر خیبر کی دوسری بستی پر حملہ ہوا، اس کے قلعے بھی محاصرے اور جنگوں کے مفتوح ہوئے۔ اس کے تیسری بستی کی نوبت آئی اور ابی الحقیق یہودی کے قلعہ قموص پر حملہ ہوا، یہ قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، اسی قلعہ میں سے صفیہ بنت حیی بن اخطب اور دوسرے بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے، صفیہ بنت حیی کی شادی کنانہ بن الربیع بن ابی الحقیق سے ہوئی تھی، بعد گرفتاری وہ سیّدنا دحیہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی تھیں ، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزاد کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں ۔ یہاں وطیح اور سلالم دو قلعے باقی رہ گئے، ان دونوں کا دس روز تک مسلمانوں نے محاصرہ کیا، محصور یہودی جب محاصرہ کی شدت سے تنگ آ گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم کو نصف پیداوار بطور مال گزاری لینے کی شرط پر اگر ہماری زمینوں پر بطور کاشتکار قابض رکھا جائے تو ہم اطاعت قبول کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان یہودیوں کو زراعت اور باغات کی نصف پیداوار کے خراج پر بطور رعایا ان کی اراضیات پر قابض اور آباد رہنے دیا گیا، جو سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے آخر عہد خلافت تک خیبر میں آباد رہے۔خیبر کی اس جنگ میں پندرہ مسلمان شہید ہوئے، چار مہاجرین میں سے، گیارہ انصار میں سے، اور ۹۳ یہودی مارے گئے، اسی جنگ میں حمار اہلی (گھریلو گدھے) کے گوشت کو مسلمانوں کے لیے حرام قرار دیا گیا، [1]اسی جنگ میں متعہ کو ہمیشہ کے لیے حرام کیا گیا۔[2]
[1] صحیح بخاری میں تو پالتو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو : کتاب النکاح، حدیث ۵۱۱۵۔ سیرت ابن ہشام ص ۴۵۹۔ [2] صحیح بخاری، کتاب النکاح، حدیث ۵۱۱۵ و ۵۱۱۹۔