کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 239
ہجرت کا ساتواں سال فتح خیبر: صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی طرف سے اطمینان حاصل ہو گیا تھا، لیکن مدینے آکر معلوم ہوا کہ خیبر کے علاقہ میں مسلمانوں کی بیخ کنی اور مدینہ پر حملہ آوری کے سامان مکمل ہو رہے ہیں ۔ مدینے سے بنو قینقاع اور بنو نضیر جلا وطن ہو ہو کر خیبر ہی میں اقامت گزیں ہوئے تھے، ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کی عداوت و دشمنی کے آتش کدے شعلہ زن تھے، انہوں نے خیبر کے یہودیوں کو بھی مسلمانوں کی عداوت پر بہت جلد مستعد و آمادہ کر لیا، مکہ کے بعد اب مسلمانوں کی مخالفت و عداوت کا سب سے بڑا مرکز خیبر تھا، یہود کے تقریباً تمام طاقت ور قبائل خیبر میں مجتمع ہو کر پہلے تو مشرکین مکہ اور عرب کے دوسرے طاقت ور قبائل کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرنے میں مصروف رہے، اب انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ اور استیصال کے لیے خود جنگی تیاریاں شروع کر دی تھیں ، عرب کے قبیلہ غطفان کو انہوں نے اس شرط پر اپنا شریک بنایا کہ مدینہ کی نصف پیداوار تم کو دی جائے گی۔ یہودیوں کی جنگی تیاریاں معمولی نہ تھیں ، بلکہ ان کا دائرہ نہایت وسیع اور ان کی ریشہ دوانیاں نہایت خطرناک تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے مدینہ کے منافقین کو بھی اپنا شریک کار بنا لیا تھا، ان منافق جاسوسوں کے ذریعہ وہ خیبر میں دور کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی ایک ایک حرکت سے باخبر رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی ان تیاریوں کا حال سن کر محرم ۷ ھ میں پندرہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جن میں دو سو سوار تھے مدینہ سے خیبر کی جانب کوچ فرمایا اور مدینے میں سیّدنا سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو عامل بنا کر چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے قریب پہنچ کر خیبر اور بنی غطفان کے درمیان مقام رجیع کو لشکر گاہ تجویز فرمایا، بنی غطفان کو یہ خوف ہوا کہ مسلمان ہماری بستیوں پر حملہ آور ہوں گے، اس لیے وہ اپنے ہی گھروں میں مدافعت اور مقابلہ کے لیے موجود رہے، خیبر کے یہودیوں کی مدد کو نہ جا سکے۔ خیبر کا علاقہ تین الگ الگ بستیوں پر مشتمل تھا جن میں یہودیوں کے پاس ایک دوسرے کے