کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 236
تلوار لیے ہوئے سامنے نمودار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ آتش جنگ بھڑکانا چاہتا ہے، اگر اس کی مدد کی گئی تو ضرور لڑائی کرا کر رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو یقین ہو گیا کہ مدینہ میں میرا رہنا دشوار ہے، انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور مجھ کو ان مشرکوں کے سپرد فرما دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پھر آزاد کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد کی پابندی میں مجھ کو پھر مشرکوں کے سپرد فرمائیں گے، لہٰذا میں جاتا ہوں یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیئے۔ قریش کا آدمی مکہ میں گیا اور تمام حال قریش مکہ کو سنایا، ابوبصیر رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہو کر ساحل سمندر کے قریب مقام عمیص میں مقیم ہو گئے، ابوجندل بن سہل رضی اللہ عنہ جن کا حال اوپر مذکور ہو چکا ہے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا حال سن کر مکہ سے فرار ہوئے اور سیدھے مقام عمیص میں ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، اس کے بعد یکے بعد دیگرے جو شخص مکہ میں مسلمان ہوتا، مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شریک ہو جاتا، رفتہ رفتہ ان کا ایک زبردست گروہ مقام عمیص میں جمع ہو گیا۔ اب اس گروہ نے قریش مکہ کے قافلوں پر جو ملک شام کو تجارت کے لیے جاتے تھے چھاپے مارنے شروع کر دیئے، قریش مکہ کے لیے یہ گروہ اس قدر پرخطر ثابت ہوا کہ ان کا ناک میں دم آ گیا اور وہ تنگ اور عاجز ہو کر بجز اس کے اور کچھ نہ کر سکے کہ انہوں نے بہ منت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم معاہدہ کی چوتھی شرط کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، اب جو شخص مسلمان ہو کر مکہ سے مدینے جائے گا ہم ہرگز اس کو واپس نہ لیں گے اور ازراہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمیص والے مسلمانوں یعنی جماعت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس مدینے میں بلا لیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم مع اپنی جماعت کے مدینے میں چلے آؤ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عمیص میں پہنچا ہے تو ابوبصیر بیمار اور صاحب فراش تھے، انہوں نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو بلا کر ہدایت کی کہ تم اس حکم کی تعمیل کرو اس کے بعد ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا، اور ابوجندل رضی اللہ عنہ مع رفقاء مدینے میں چلے آئے،[1] ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ واقعہ معاہدہ حدیبیہ کے سلسلہ میں اس جگہ مسلسل بیان کر دیا گیا ہے ورنہ اس کا تعلق ۶ ھ سے ہے۔
[1] ابو بصیر اور ابو جندل رضی اللہ عنہم کا یہ سارا واقعہ صحیح بخاری، کتاب الشروط، حدیث ۲۷۳۱ و ۲۷۳۲ میں تفصیل سے موجود ہے۔