کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 235
ہوئی اور خدائے تعالی نے اسی صلح کو جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک قسم کی شکست سمجھ رہے تھے فتح مبین قرار دیا، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ صلح اسلام کے لیے فتح مبین ہی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو شکست اس لیے سمجھ رہے تھے کہ بظاہر بعض شرائط میں اپنے آپ کو دبا ہوا اور کمزور پاتے تھے لیکن بہت جلد میں معلوم ہوا کہ وہ کمزور شرائط ہی بے حد مفید شرائط تھیں ، اسلام کے لیے سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ جنگ و پیکار کا سلسلہ ختم ہو کر امن و امان اور اطمینان حاصل ہوا، اسلام جس قدر امن و امان کی حالت میں اپنا دائرہ وسیع کر سکتا ہے لڑائی اور جنگ وجدل کی حالت میں اس قدر نہیں پھیل سکتا، اسلام کا اصل منشا ہی یہ ہے کہ دنیا میں انسان امن و امان کی زندگی بسر کرے، اسلام کو لڑائی بھی اسی لیے کرنی پڑتی ہے کہ امن و امان قائم ہو، اسلامی لڑائیاں لڑائیوں کے لیے نہیں بلکہ لڑائیوں کے مٹانے اور امن و امام قائم کرنے کے لیے تھیں ، چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد صرف دو برس کے عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔ صلح حدیبیہ کے نتائج: معاہدہ کی چوتھی شرط سب سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ناگوار معلوم ہوتی تھی، اب اس شرط کے نتائج دیکھئے، چند روز کے بعد ایک شخص ابوبصیر رضی اللہ عنہ جو مکہ میں اسلام قبول کر چکے تھے مکہ کے ماند بود سے تنگ آکر بھاگے اور مدینہ میں آکر پناہ گزیں ہوئے، قریش نے اپنے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجے کہ معاہدہ کے موافق ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس بھیجا جائے، آپ رضی اللہ عنہ نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی خواہش پر معاہدہ کی پابندی کو ترجیح دی اور ان دونوں شخصوں کے ہمراہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ تو مکہ میں واپس جانا اپنے لیے موت سے بدتر سمجھتے تھے، ذوالحلیفہ پہنچ کر ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو ایک راہ مفر سوجھی، انہوں نے اپنے محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ تمہاری تلوار بڑی اعلیٰ درجہ کی معلوم ہوتی ہے، محافظ نے یہ سن کر اپنے ساتھی کی تلوار کو برہنہ کر کے ہاتھ میں لیا اور تعریف کرنے لگا، ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ذرا مجھے تو دکھاؤ، اس نے تلوار بلاتکلف ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے دی، ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے تلوار ہاتھ میں لیتے ہی ایک ہاتھ اس صفائی اور چابک دستی سے مارا کہ ان میں سے ایک کا سر کٹ کر الگ جا پڑا، دوسرا فوراً اٹھ کر بھاگ گیا۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ تلوار لیے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے وہ وہاں سے مدینہ ہی کی طرف بھاگا اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے پہلے مدینہ میں داخل ہوا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حواس باختہ گھبرایا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھی کے مارے جانے کا حال سنایا، وہ ابھی حال سناہی رہا تھا کہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ بھی