کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 234
معاہدہ صلح کاردعمل: اس معاہدہ کی چوتھی شرط صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت ناگوار اور گراں معلوم ہوتی تھی، اتفاق سے ابھی عہد نامہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ خود سہیل کا بیٹا ابوجندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان ہو گیا تھا اور اس جرم میں پابند سلاسل کر دیا گیا تھا کہ کسی طرح قید سے نکل کر اور بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کو کفار نے جرم اسلام کے سبب سخت سے سخت جسمانی ایذائیں دی تھیں ، ان کے جسم پر زخموں کے نشان اور تازہ زخم موجود تھے، انہوں نے وہ زخم دکھائے اور فریاد کی کہ مجھ کو ضرور اپنے ساتھ مدینے لے چلیے، سہیل نے کہا کہ عہد نامہ کی شرط کے موافق ابوجندل رضی اللہ عنہ ہم کو واپس ملنا چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کو سمجھایا مگر وہ راضی نہ ہوا، بالآخر ابوجندل رضی اللہ عنہ سہیل کے سپرد کیے گئے، سہیل وہیں سے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو مارتا ہوا مکہ کی طرف لے چلا۔ اس نظارہ کو دیکھ کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بیتاب ہو گئے، فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاریب میں نبی برحق ہوں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم مسلمان ہو، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ضرور مشرک ہیں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم دین کے معاملہ میں ایسی ذلت کیوں گوارا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کے حکم کی مخالفت اور بدعہدی نہیں کر سکتا، وہ مجھے ہرگز ذلیل نہیں کرے گا۔ اس کے بعد جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ فروہوا تو وہ اپنی اس جرائت و گستاخی پر بہت ہی پشیمان ہوئے، زندگی بھر توبہ و استغفار کرتے اور غلام آزاد کرتے رہے۔[1] فتح مبین: صلح نامہ کی تکمیل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے حدیبیہ کے مقام پر قربانیاں کیں احرام کھولے اور حجامتیں بنوائیں ، اس صلح نامہ یا عہد نامہ کے بعد قبیلہ خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف ہو گیا اور قبیلہ بنو بکر قریش مکہ کا حلیف بن گیا، خزاعہ اور بنوبکر میں مدتوں سے عداوت چلی آتی تھی، یہ دونوں چونکہ ایک ایک فریق کے حلیف بن گئے، لہٰذا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان امن و امان کے ساتھ رہنے کا عہد ہوا اسی طرح ان دونوں میں بھی صلح قائم ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے مدینے کو واپس تشریف لا رہے تھے تو راستے میں سورۂ فتح نازل
[1] صحیح بخاری، کتاب الشروط، حدیث ۲۷۳۱، ۲۷۳۲۔