کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 233
گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے دستاویز کی پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو سہیل نے کہا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے تم ہمارے دستور کے موافق باسمک اللھم لکھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ایسے ہی لکھ دو، جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ’’محمد رسول اللہ لکھا صلی اللہ علیہ وسلم تو سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم کرتے تو پھر یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچتی تم صرف ’’محمد بن عبداللّٰہ‘‘ ہی لکھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں خواہ تم مانو یا نہ مانو، پھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ سہیل کی خواہش کے مطابق اس لفظ کو کاٹ دو، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا کہ میں لفظ رسول اللہ کو قلم سے کاٹوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لاؤ میں اپنے ہاتھ سے کاٹے دیتا ہوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ پر قلم پھیر دیا۔[1] شرائط: اس صلح نامہ یا عہد نامہ کے شرائط یہ تھے: ۱۔ مسلمان اس سال عمرہ نہ کریں گے، آئندہ سال آ کر عمرہ کریں گے، مکہ میں داخل ہوتے وقت سوائے تلوار کے کوئی ہتھیار ان کے پاس نہ ہو گا، تلوار بھی نیام کے اندر ہو گی اور تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں گے۔ ۲۔ صلح کی میعاد دس سال ہو گی، اس عرصہ میں کوئی فریق دوسرے فریق کے جان و مال سے قطعاً متعرض نہ ہو گا، باہم امن و امان کے ساتھ رہیں گے۔ ۳۔ عرب کی ہر ایک قوم اور ہر ایک قبیلہ کو اختیار ہو گا کہ وہ جس فریق کے ساتھ چاہے ہم عہد ہوجائے، ان ہم عہد قبائل پر بھی اس صلح نامہ کی شرائط اسی طرح نافذ ہوں گی، دونوں فریق قبائل کو اپنا ہم عہد اور حلیف بنانے میں آزاد ہوں گے۔ ۴۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص بلا اجازت اپنے ولی کے مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو قریش کی طرف واپس کیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس آ جائے گا تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔[2]
[1] صحیح بخاری، کتاب الشروط، حدیث ۲۷۳۱، ۲۷۳۲۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۴۵۳ و ۴۵۴۔