کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 232
بنو ثقیف کے سردار عروہ بن مسعود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، عروہ نے آ کر کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قریش کے تمام قبائل تمہارے مقابلے کے لیے آمادہ و مستعد ہیں ، تمہارے ساتھ جو لوگ ہیں مقابلے کے وقت یہ سب تم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور قریش کے سامنے ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عروہ کا یہ کلام سن کر نہایت سخت جواب دیا، عروہ خاموش ہو کر رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ سے کہا کہ ہم لڑائی کے ارادہ سے نہیں بلکہ عمرے کے ارادے سے آئے ہیں ، لیکن اگر مکہ والے لڑائی پر آمادہ ہیں تو میں اپنے امر نبوت کے لیے اس وقت تک ان سے لڑوں گا جب تک میری ہڈیاں گوشت سے برہنہ ہو جائیں ، یا اللہ تعالیٰ اپنا حکم صادر نہ فرمائے، مکہ والے اگر چاہیں تو ایک مدت کے لیے مجھ سے التوائے جنگ کا معاہدہ کر سکتے ہیں ، وہ مجھ کو تبلیغ و ہدایت کا کام کرنے دیں اور چاہیں تو خود بھی اسلام قبول کر کے جنگ و جدل کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں ۔[1] رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی والہانہ محبت: عروہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا تو وہ اپنا ہاتھ پھیلا پھیلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈاڑھی کے قریب لے جاتا تھا، سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو اس کی یہ حرکت ناگوار گزری، انہوں نے اپنا قبضہ شمشیر اس کے ہاتھ پر مارا اور مؤدبانہ کلام کرنے کے لیے کہا، عروہ جب قریش مکہ کے پاس واپس گیا تو کہا یا معشر قریش! میں نے ہراقلہ روم اور اکاسرہ ایران کے دربار دیکھے ہیں ، میں نے کسی بادشاہ کو اپنے ہمراہیوں میں اس قدر محبوب و مکرم نہیں پایا جس قدر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں محبوب و باعزت ہیں ، اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے، جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور تعظیم کی راہ سے ان کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتے، یہ لوگ کسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات تمہارے سامنے پیش کی ہے تم اس کو قبول کر لو اور مناسب یہی ہے کہ صلح کو غنیمت جانو۔ اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو اپنا مختار کل بنا کر بھیجا اور اس کو سمجھا دیا کہ صلح صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے ہمراہیوں کے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دور سے سہیل کو آتے دیکھا تو فرمایا کہ معاملہ اب سہل ہو گیا، قریش نے جب اس شخص کو بھیجا ہے تو ان کی نیت مصالحت کی ہے، چنانچہ سہل نے شرائط صلح پیش کیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو قبول فرما، لیا اسی وقت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ صلح نامہ لکھنے کے لیے طلب کے
[1] صحیح بخاری، کتاب الشروط، حدیث ۲۷۳۱ و ۳۷۳۲۔