کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 231
مسلمانوں پر حملہ آور ہو لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو دیکھ لیا اور سب کو گرفتار کر لیا، مگر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق سب کو رہا کر دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کے پاس بھیجیں ، سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھ کو اہل مکہ کے پاس جانے میں کوئی عذر نہیں ہے، لیکن مکہ میں میرے قبیلہ بنو عدی بن کعب کا کوئی آدمی نہیں ہے جو مجھ کو اپنی حمایت میں لے لہٰذا میرا جانا خطرہ کا موجب ہو سکتا ہے، مجھ سے بہتر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ، کیونکہ ان کے قبیلہ بنو امیہ کے بہت سے بااثر اور طاقت ور آدمی موجود ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کو بہت پسند فرمایا اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بطور ایلچی ابوسفیان کے پاس روانہ کیا، سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مکہ میں سب سے اوّل ابان بن سعید بن العاص سے ملاقات ہوئی، ابان نے فوراً ان کو اپنی حمایت میں لے لیا، اور ابوسفیان اور دوسرے سرداران قریش کے پاس لے گیا، سرداران قریش نے سیّدنا عثمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیام سن کر کہا خانہ کعبہ کا طواف کر لو، سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تنہا طواف نہیں کر سکتا، یہ سن کر قریش برہم ہوئے اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ بیعت رضوان: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جب واپس آنے میں توقف ہوا تو مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ والوں نے شہید کر دیا ہے، اس خبر کے سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ نہ لے لیں گے یہاں سے نہ ٹلیں گے، چنانچہ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے جاں نثاری کی بیعت لی، یہ بیعت، بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہوئی، اس کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ﴾ (الفتح : ۴۸/۱۸) ’’جس وقت مسلمانوں نے اے رسول تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالیٰ تعالی ان سے خوش ہو گیا۔‘‘[1] مگر تھوڑی ہی دیر بعد سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ سے تشریف لے آئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی قسم کی بیعت کی، کفار مکہ کے مآل اندیش اور سمجھدار لوگوں نے تو لڑائی کرنا پسند نہ کیا تھا لیکن کثرت ان میں ایسے لوگوں کی تھی جو فساد پر آمادہ تھے، اب مسلمانوں کی جنگ پر آمادگی اور تیاری کو دیکھ کر یہ فسادی لوگ بھی کچھ کچھ صلح و آشتی کی طرف مائل ہوئے، چنانچہ مکہ والوں نے قبیلہ
[1] بیعت رضوان کی کچھ تفصیل صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم حدیث ۳۶۹۹ میں موجود ہے۔