کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 230
تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اس جگہ بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اونٹنی نے دھوکا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹنی نے دھوکا نہیں دیا۔ حرمت الٰہی کے خلاف تمہاری خواہشیں پوری نہیں ہو سکیں ۔[1] مقام حدیبیہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ کے کنویں پر پہنچ کر قیام کیا، اس کنویں میں بہت ہی تھوڑا سا پانی تھا جو ذرا سی دیر میں ختم ہو گیا۔ لوگوں کو پانی کی تکلیف ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیا کہ یہ تیر کنویں میں ڈال دو، تیر کے ڈالتے ہی پانی کنویں میں اس قدر بڑھ گیا کہ لشکر اسلام کو پانی کی قطعاً تکلیف نہ ہوئی، جب حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقیم ہوئے تو قریش مکہ کی جانب سے بدیل بن ورقاء خزاعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند لوگوں کے ہمراہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا سبب دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ قافلہ کے آگے قربانی کے اونٹوں کی قطار ہے اور ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ۔ بدیل یہ سن کر واپس چلا گیا، اور قریش مکہ سے کہا کہ تم ناحق شور و غوغا مچا رہے ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف بیت اللہ کی زیارت کو آئے ہیں ، تم سے لڑنے کو نہیں آئے، قریش کے فتنہ پسند لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو بیت اللہ کی زیارت کے لیے بھی نہیں آنے دیں گے، لیکن ان کے سمجھ دار لوگ کچھ خاموش ہو کر سوچنے لگے۔ اس کے بعد اہل مکہ نے حلیس بن علقمہ کنانی قبائل احابیش کے سردار اعظم کو قاصد بنا کر بھیجا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تک بھی نہیں آیا بلکہ قربانی کے اونٹوں کو دیکھ کر راستہ ہی سے واپس چلا گیا اور کہا کہ مسلمان لڑنے کے ارادہ سے نہیں آئے بلکہ عمرے کے ارادہ سے آئے ہیں ، زیارت کعبہ سے روکنے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ یہ سن کر قریش نے کہا کہ تم جنگلی آدمی کچھ نہیں جانتے ہو، ہم مسلمانوں کو ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ورنہ ہماری بڑی بے عزتی ہوگی، حلیس کو سن کر غصہ آگیا اس نے کہا کہ اگر تم مسلمانوں کو عمرہ نہ ادا کرنے دو گے تو میں اپنے تمام آدمیوں کو لے کر تم سے لڑوں گا۔ یہ رنگ دیکھ کر قریش نے حلیس کے غصہ کو ٹھنڈا کیا اور منت و سماجت کے ساتھ سمجھا بجھا کر اسے خاموش کیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خراش بن امیہ خزاعی کو تغلب نامی اونٹ دے کر قریش مکہ کے پاس روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ ہم لڑنے کے ارادہ سے نہیں آئے، ہمارا مقصود صرف زیارت کعبہ سے مشرف ہونا اور قربانی ادا کرنا ہے، خراش نے یہ پیغام قریش کو پہنچایا۔ قریش نے خراش کے اونٹ کو ذبح کر دیا اور خراش کو بھی مار ڈالنا چاہا، لیکن حلیس اور اس کے لوگوں نے خراش کو قریش مکہ کے چنگل سے بچا کر واپس روانہ کر دیا، اور اس کے بعد قریش کے خود سر نو جوانوں کی ایک جماعت مکہ سے نکل کر وادی میں آئی کہ موقع پا کر
[1] صحیح بخاری، کتاب الشروط، حدیث ۲۷۳۱، ۲۷۳۲۔