کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 23
سال کے عرصہ میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے مذہب کو ماننے والے بحراطلا نطک سے بحرالکاہل یعنی چین کے مشرقی ساحل تک یا، یوں کہے کہ تمام متمدن دنیا کا احاطہ کر چکے ہوں ، اس محیر العقول اور خارق عادت کامیابی کی نظیر دنیا پیش نہیں کر سکتی اور تعلیم اسلامی کی خوبی اگر تمام قوانین مذاہب پر فائق اور محاسن ملل کی جامع ہے تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر البشر، خاتم النّبیین، رحمتہ للعالمین ہونے میں کسی کو کیا کلام ہو سکتا ہے؟ اور دنیا میں کس کا حوصلہ ہے جو ان کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی اس لانظیر صفت اور اس ناقابل تردید دعوی اور خدائی دعوی کی تردید پر آمادہ ہو سکے کہ : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (’’ہم نے ہی یہ ذکر (قرآن /دین) نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘ (الحجر : ۱۵/۹)…)
قوموں کو منازل ترقی طے کرانے اور قوموں کو ذلت و پستی سے بچانے کے لیے تاریخ ایک زبردست مؤثر اور نہایت قیمتی ذریعہ ہے، قومیں جب کبھی قعر مذلت سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں انہوں نے تاریخ ہی کو سب سے بڑا محرک پایا ہے، قرآن کریم نے ہم کو یہ بھی بتایا ہے کہ سعادت انسانی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے، چنانچہ خدائے تعالیٰ نے لوگوں کو عبرت پذیر اور نصیحت یاب ہونے کے لیے کلام پاک میں جا بجا امم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بد اعمالیوں کے کیسے بدنتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب و فائزالمرام ہوئی، آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ ( علیہم السلام ) وغیرہم کے واقعات اور فرعون نمرود، عاد، ثمود وغیرہم کے حالات قرآن کریم میں اسلیے مذکور و مسطور نہیں کہ ہم ان کو دل بہلانے اور نیند لانے کا سامان بتائیں بلکہ یہ سچے اور یقینی حالات اس لیے ہمارے سامنے پیش کیے گئے ہیں کہ ہمارے اندر نیک کاموں کے کرنے کی ہمت اور بداعمالیوں سے دور رہنے کی جرأت پیدا ہو اور ہم اپنے حال کو بہترین مستقبل کا ذریعہ بنا سکیں ۔
انبیاء علیہم السلام جو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن، سب سے زیادہ خیر خواہ اور سب سے زیادہ شفیق علی خلق اللہ ہوتے ہیں ، انہوں نے جب کبھی کسی قوم کو ہلاکت سے بچانے اور عزت اور سعادت سے ہمکنار بنانے کی سعی و کوشش فرمائی ہے تو اس کو قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی ہے، دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور ریفارمروں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کو حالات رفتگان اور گزرے واقعات کے مطالعہ نے محوو مدہوش اور از خودفراموش بنا کر آمادہ کار اور مستعد سعی و ایثار نہ بنایا ہو، یہی وجہ ہے کہ ہر ایک واعظ اور ہر ایک لیکچرار جو سامعین کو اپنے حسب منشاء پر جوش اور آمادہ کار بنا سکتا ہے اس