کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 229
صلح حدیبیہ اگرچہ ملک عرب میں دین ابراہیمی کا رواج تھا اور اہل عرب شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے، لیکن خانہ کعبہ کی عظمت کو سب تسلیم کرتے اور خانہ کعبہ کا حج ہمیشہ کرتے تھے، حج کے ایام میں لڑائیوں کو بھی ملتوی کر دیتے تھے، ماہ شوال ۶ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ صحابہ کرام کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں ، صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے طواف و زیارت کی آرزو بھی تھی، اس خواب سے اور بھی تحریک ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ یعنی زیارت کعبہ کا عزم فرمایا، ماہ ذیقعدہ ۶ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار چار سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے، عمرہ کا احرام باندھا اور قربانی کے ستر اونٹ ہمراہ لیے، احرام کا باندھنا اور قربانی کے اونٹوں کا ہمراہ ہونا اس بات کی علامت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے بلکہ صرف بیت اللہ کی زیارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہے، قریش مکہ کو بھی کسی طرح حق حاصل نہ تھا کہ وہ کعبہ کی زیارت سے کسی کو باز رکھیں ۔ مقام ذی الحلیفہ میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص کو احتیاطاً بطور جاسوس آگے روانہ کیا، اس نے مقام عسفان میں واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ قریش نے آپ کی آمد کا حال سن کر بڑی زبردست جمعیت مقابلہ کے لیے فراہم کر لی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ تک پہنچنے سے روکیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم لوگ عمرے کی نیت سے آئے ہیں لڑنے کے ارادہ سے نہیں آئے اور اگر کوئی شخص ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو تو ہمیں مجبوراً اس سے لڑنا چاہیے، [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رائے سن کر آگے بڑھنے کا حکم دیا، قریش مکہ نے خالد بن ولید کو سواروں کا ایک دستہ دے کر مقام کراع الغمیم پر بھیج دیا کہ مسلمانوں کو مکہ کی طرف بڑھنے سے روکیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عسفان سے روانہ ہو کر راستے سے کسی قدر داہنی جانب کترا کر سفر اختیار کیا اور یکایک خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مغرب سے گزرے، خالد بن ولید مسلمانوں کی اس یکایک تبدیلی کو دیکھ کر مکہ کی طرف سرپٹ گھوڑا دوڑا کر گئے اور اہل مکہ کو مسلمانوں کے قریب پہنچ جانے کی اطلاع دی، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھتے ہوئے اس پہاڑی پشتے تک پہنچ گئے جس سے دوسری جانب اتر کی شہر مکہ کا نواحی علاقہ شروع ہوجاتا
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۷۸، ۴۱۷۹۔