کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 227
نے اس سے پتہ معلوم کیا اور حسب وعدہ رہا کر دیا، یہ لوگ مقام فدک پر مجتمع تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا، دشمنوں سے سخت مقابلہ ہوا، بالآخر وہ سب بھاگ گئے، مال غنیمت میں پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں ، اس غنیمت کو لے کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے آئے۔[1] تبلیغ اسلام: شعبان ۶ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نواح دومتہ الجندل کی طرف تبلیغ اسلام کے لیے روانہ کیا، یہاں کے باشندے ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے، ان کا ایک سردار اصبغ بن عمر کلبی عیسائی مذہب کا پیروتھا، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصبغ نے اسلام قبول کر لیا، اس نواع کے اکثر باشندوں نے اس سردار کی تقلید کی۔ بعض سردار جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا جزیہ دینے پر رضا مند ہو گئے، اصبغ کی بیٹی تماضر نامی کا نکاح سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان ہی کی بطن سے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نامی فقیہ جو اکابر تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں پیدا ہوئے۔ منافقوں کی شرارت کا ایک واقعہ: چنداشخاص جو قبیلہ عرینہ وعکل سے تعلق رکھتے تھے۔ مدینہ میں آکر بظاہر مسلمان ہو گئے اور چند روز مدینہ میں رہ کر بیمار اور سخت جسمانی اذیت میں مبتلا ہو گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو احد کے شمال جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کی چراگاہ تھی بھیج دیا، وہاں چوپایوں کا پیشاب اور دودھ پی پی کر جب یہ لوگ خوب تندرست اور موٹے تازے ہو گئے تو انہوں نے یہ شرارت کی کہ یسار رضی اللہ عنہ نامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم کو جو اونٹوں کی حفاظت کے لیے مقرر تھا تنہا پا کر بڑی بے رحمی سے قتل کیا، اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے، اس کی آنکھوں میں ببول کے کانٹے چبھوئے، اس کی دست و پابریدہ لاش کو ایک درخت کی شاخ سے باندھ کر لٹکایا، اور تمام اونٹوں کو ہانک کر لے گئے،جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرز بن جابر الفہری کو بیس سواروں کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ کیا، چنانچہ بدمعاش ابھی راستے ہی میں تھے کہ گرفتار کیے گئے، جب گرفتار ہو کر مدینے میں پہنچے تو قتل کا حکم صادر ہوا اور وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔[2]
[1] الرحیق المختوم، ص ۴۵۶۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۹۲۔