کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 223
کی ملامت دامن گیر نہ ہونے دوں گا، جب سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی سواری قریب پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے حکم دیا کہ اپنے سردار کی تعظیم کو اٹھو، چنانچہ سب نے ان کو عزت و تعظیم کے ساتھ لیا، اس کے بعد سیّدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے قدیمی دوستوں یعنی بنو قریظہ کا معاملہ تمہارے سپرد کر دیا ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ تم سب خدائے تعالی کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرو کہ میرے فیصلہ کو بخوشی قبول کرو گے اورکوئی چون و چراں نہ کرو گے، سب نے اقرار کیا کہ ہم تمہارے فیصلہ پر رضا مند ہوں گے، پھر سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی اقرار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین سے بھی لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر رضا مند ہونے کا اقرار فرمایا، اس کے بعد سیّدنا سعد بن معاذ نے فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ بنو قریظہ کے تمام مرد قتل کر دیئے جائیں ان کی بیوی بچوں کے ساتھ اسیران جنگ کا سا سلوک کیا جائے اور ان کے اموال و املاک کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
اس فیصلہ کے بعد بنو قریظہ کو قلعہ سے نکلنے کا حکم دیا گیا اور ان کو زیر حراست مدینہ میں لایا گیا، ان کے مرد قتل کیے گئے اور ان کے مکانات مسلمانوں کو رہنے کے لیے دیے گئے۔[1]
سنہ ۵ ھ کے بقیہ حوادث:
ماہ ذی الحجہ۵ ھ میں سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح بحکم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساحل کی طرف تین سو مہاجرین کے ساتھ روانہ ہوئے کہ وہاں قبیلہ جہینہ کے حالات کی تفتیش کریں ،کیونکہ اس طرف سے اندیشہ ناک خبریں پہنچی تھیں ، سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہیوں کو اس سفر میں کھانے پینے کی سخت اذیت برداشت کرنی پڑی، صرف دو دو تین تین کھجوروں پر ایک ایک دن بسر کرتے تھے، آخر ساحل
سمندر پر ایک بہت بڑی مچھلی دستیاب ہوئی جو سب کے لیے کافی ہوئی، [2]بنی کلاب کی نسبت خبر پہنچی کہ وہ غدر کا ارادہ رکھتے ہیں ، چنانچہ اسی ماہ ذی الحجہ ۵ ھ میں محمد بن مسلمہ تیس آدمیوں کی جمعیت کے ساتھ اس طرف روانہ ہو گئے، بنی کلاب نے ان کا مقابلہ کیا، بنی کلاب کے دس آدمی مارے گئے، باقی بھاگ گئے، پچاس اونٹ اور تین ہزار بکریاں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ۔
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۲۱ و ۴۱۲۲۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب جواز قتال من نقض العھد۔
[2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۳۶۰ تا ۴۳۶۲۔