کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 222
ہے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو قتل کر دو اورقلعہ سے نکل کر میدان میں مسلمانوں سے جان توڑ کر مقابلہ کرو، اگر فتح مند ہوئے تو عورتیں اور بچے پھر میسر آ سکتے ہیں ، مارے گئے تو ننگ و ناموس کی طرف سے بے فکر مریں گے، بنو قریظہ نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے بھی انکار کیا۔ کعب بن اسد نے کہا کہ میرا تیسرا مشورہ یہ ہے کہ سبت کی رات میں مسلمانوں پر شب خون مارو کیونکہ اس روز ہمارے یہاں قتل کرنا اور حملہ آور ہونا ناجائز ہے، مسلمان اس رات کو ہماری طرف سے بالکل بے فکر اور غافل ہوں گے اس لیے ہمارا شب خون بہت کامیاب رہے گا اور ہم مسلمانوں کا بہ کلی استیصال کر دیں گے، اس بات پر بھی بنو قریظہ رضا مند نہ ہوئے اور کہا کہ ہم سبت کی بے حرمتی بھی نہیں کرنا چاہتے، شرفاء بنو قریظہ میں سے تین شخصوں نے جن کے نام ثعلبہ بن سعید، اسد بن عبید اور اسید بن سعید تھے اسلام قبول کر لیا، ایک شخص عمروبن سعد نے کہا کہ میری قوم بنو قریظہ نے بدعہدی کی ہے، میں اس بدعہدی میں اس کا شریک نہیں رہنا چاہتا، یہ کہہ کر وہ قلعہ سے باہر نکل گیا اور لشکر اسلام کے ایک سردار محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے جو طلایہ گردی کی خدمت انجام دے رہے تھے اس کو قلعہ سے نکلتے ہوئے دیکھا، اس کا نام و نشان اور ارادہ معلوم کر لینے کے بعد نکل جانے دیا مگر گرفتار نہیں کیا۔ آخر ایک صبح کو بنو قریظہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہمارے لیے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول فرما لیا، بنو قریظہ نے جب اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا تو قبیلہ بنی اوس کے مسلمان انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ جب زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کی لڑائیاں ہوتی تھیں تو بنو قریظہ ہمارے یعنی قبیلہ اوس کے طرفدار ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو قینقاع کو قبیلہ خزرج کے انصار کی مرضی کے موافق چھوڑ دیا تھا، اب ہماری باری ہے، لہٰذا بنو قریظہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم مقرر فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی تمہارے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم تسلیم کر لیا ہے، اور بنو قریظہ نے بھی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے وکیل مطلق بنا دیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ اوس کے تمام انصار خوش ہو گئے، چنانچہ اسی وقت انصار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوگئے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مجروح اور زیر علاج تھے، ان کو لشکر اسلام کی طرف لائے، راستے میں لوگ ان سے کہتے آتے تھے کہ آپ کا فیصلہ ناطق ہو گا، اب آپ کو موقع حاصل ہے کہ بنو قریظہ کے ساتھ رعایت کریں ، سعد ابن معاذ نے جب اس قسم کی باتیں اپنی قوم کے آدمیوں سے سنیں تو انہوں نے کہا کہ انصاف و عدل کے مطابق فیصلہ کروں گا اور کسی